بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کے نفقے کا حکم


سوال

میں ایک سول انجینئر ہوں اور گزشتہ پانچ ماہ سے بر سرِ روزگار ہوں، میرا ایک چھوٹا بھائی اور بہن ہے، 2013 میں والدہ کی وفات کے بعد ہم تینوں سے والد صاحب کا رویہ انتہائی نا زیبا اور تکلیف دہ ہے ، 2016 میں انہوں نے دوسری شادی کر لی اور دوسری زوجہ سے انہیں ایک بیٹا پیدا ہوا، دوسری شادی کے بعد اب سوتیلی ماں کے ساتھ مل کر والد صاحب اذیت دیتے ہیں، سخت تکلیف اور ذہنی آزمائش ہے، میری تنخواہ 30000 روپے ہے، اب مجھ سے پیسے مانگ رہے ہیں اور پورے خاندان میں ذلیل کر رہے ہیں، مجھ پر اپنے اور بہن بھائیوں کے اخراجات کا بوجھ ہے، میرا دل ہرگز نہیں مانتا کہ میں ان کو ایک روپیہ بھی دوں، ہمیں ہمارے ننھیال سے بات کرنے کی اجازت تک نہیں، سوتیلی ماں نے سارا بوجھ میری چھوٹی بہن پر ڈال دیا ہے ، کھانا پکانا، کپڑے استری کرنا اور اپنی پڑھائی بھی کرنا ، اس بیچاری کو رلا دیتے ہیں، سوتیلی ماں ہر وقت a/c  میں بیٹھی رہتی ہے جو کہ چوری کی بجلی سے چلتا ہے ، میں حافظِ قرآن ہوں، مجھے بتائیں کہ ہم تینوں بہن بھائی کیا کریں؟ اور کیا والد صاحب کو خرچہ نہ دینا میرے لیے جائز ہے؟ اگر نہیں تو اس کا کیا حل ہے؟

جواب

شریعتِ مطہرہ میں والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کی بہت تاکید کی گئی ہے اور ہر حال میں ان کے ساتھ ادب و احترام کا معاملہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اگر آپ کے والد کا رویہ آپ بہن بھائیوں کے ساتھ سخت ہے تو بھی آپ ان کے ساتھ ادب و احترام ہی کے ساتھ پیش آئیں اور ان کو اُف تک نہ کہیں اور اس پر صبر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے اجر کی امید رکھیں، بہرحال اگر آپ کے والد تنگ دست ہیں اور مالی اعتبار سے کمزور ہیں تو آپ پر ان کا خرچہ دینا ضروری ہو گا، گو ان کے سخت رویہ کی وجہ سے آپ کا دل نہ چاہے، لیکن شریعت کے حکم اور والد کے حقوق کو اپنی چاہت پر مقدم رکھیں اور اپنی حیثیت کے مطابق ان کو خرچہ دیں۔ اور اگر وہ معاشی اعتبار سے پریشان نہیں ہیں اور ان کا ہاتھ تنگ نہیں ہے تو ایسی صورت میں ان کا نفقہ آپ پر لازم نہیں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200021

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں