میری دادی کا ایک بھائی اور ایک بہن تھے، ان کے والد نے اپنے ترکہ میں 15 ایکڑ زمین اور 30000 اسکوائر فٹ پلاٹ جس میں گھر کی جگہ بھی بنی ہوئی تھی، چھوڑے، ان کی وفات کے بعد مرحوم کے بیٹے نے تمام جائیداد اپنے نام پر کرلی، اور اپنی دونوں بہنوں کو ان کا حصہ نہیں دیا، حصہ نہ ملنے والوں میں میری دادی بھی شامل ہیں، پھر دادی کے بھائی کے انتقال کے بعد اس کے تین بیٹوں نے ساری پراپرٹی اپنے نام کرلی، اب سوال یہ ہے کہ کیا میرے والد اپنی والدہ کے حصہ کا مطالبہ اپنے ماموں کے بیٹوں سے کرسکتے ہیں، جب کہ میری دادی کا انتقال ہوگیا ہے؟
اگر لے سکتے ہیں تو کیا ان کے حصہ کا جو استعمال اب تک ہوا ہے، یا جو ان لوگوں نے زمین اے کمایا ہے اس کا ہرجانا بھی لے سکتے ہیں؟
صورتِ مسئولہ میں مرحومِ اول ( سائل کے والد کے نانا) نے اپنے ترکہ میں جو کچھ بھی چھوڑا تھا اس پر ان کے تمام شرعی ورثاء کا حق تھا، جو ان کے ورثاء ایک بیٹا اور دو بیٹیوں کے درمیان حصصِ شرعیہ کے تناسب سے تقسیم کرنا لازم تھا، مرحوم کے جس بیٹے نے تمام جائیداد پر قبضہ کرکے مرحوم کی دونوں بیٹیوں کو محروم رکھا یہ بہت بڑا ظلم تھا، احادیث میں ایسا کرنے والے شخص کے لیے جنت سے محرومی کی سخت وعید سنائی گئی ہے، لہذا مذکورہ تمام جائیدادمرحوم کاترکہ ہے اور اس سے جو کمایا اور بنایا گیا ہے، وہ بقیہ ورثاء کو ان کے حصص کے تناسب سے دے دیا جائے۔ الغرض کمانے والوں کے لیے حلال نہیں ہے۔
اگر تقسیم کا طریقہ کار معلوم کرنا ہو تو مرحومِ اول کے ورثاء کی اولاد کی مکمل تفصیل نیز مرحومِ اول کی اولاد کی وفات کی ترتیب اور ہر ایک کے ورثاء کی تعداد پوری وضاحت کے ساتھ لکھ بھیجیں۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144010200547
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن