بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

واقف کا امام کو بلاوجہ معزول کرنا / واقف کے طرزعمل کی وجہ سے اس مسجد میں نماز ترک کرنا


سوال

ایک بندہ زمین خرید کر مسجد کے لیے دے اور پھر چندہ کرکے مسجد بنوائے اور وہ یہ کہے کہ مسجد میری ہے، اور اپنی مرضی سے امام کو رکھے اور فارغ کردے،اور محلے والوں کو کسی بھی مشورہ میں شامل نہ کرے اور نہ ہی محلے سے مسجد کی ضرورت کے لیے چندہ کرے، ہر دو تین مہینہ بعد  امام مسجد کو فارغ کردے وہ بھی اس نظریہ کے ساتھ امام صاحب مسجد پر قبضہ نہ کرلیں ، اس کے علاوہ کوئی اور وجہ نہ ہوتی ہو، ایک مہینہ سے زیادہ دن ہوگئے ہیں , میں اس مسجد میں نماز کے لیے نہیں جاتا، کیا میرا یہ عمل جائز ہے؟

جواب

مذکورہ شخص کے متعلق جو تفصیل ذکر کی گئی ہے، اگر وہ واقعے کے مطابق اور درست ہے تو اس کے عمل کی قباحت اور غلط ہونے سے قطع نظر  چوں کہ وہی واقف مسجد کا متولی ہے؛ اس لیے اس کے منتخب کردہ امام کے پیچھے نماز درست ہے،  اگر یہ مسجد آپ کے محلہ کی ہے تو آپ صرف اس وجہ سے یہاں نماز پڑھنا ترک نہ کریں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 430):
’’(الباني) للمسجد (أولى) من القوم (بنصب الإمام والمؤذن في المختار إلا إذا عين القوم أصلح ممن عينه) الباني.

(قوله: الباني أولى) وكذا ولده وعشيرته أولى من غيرهم، أشباه (قوله: بنصب الإمام والمؤذن) أما في العمارة فنقل في أنفع الوسائل: أن الباني أولى (قوله: إلا إذا عين القوم أصلح ممن عينه)؛ لأن منفعة ذلك ترجع إليهم، أنفع الوسائل‘‘.
وفیہ ایضاً(4/ 427):
’’وفيها: للواقف عزل الناظر مطلقاً، به يفتى، ولم أر حكم عزله لمدرس وإمام ولاهما.

(قوله: للواقف عزل الناظر مطلقاً) أي سواء كان بجنحة أو لا، وسواء كان شرط له العزل أو لا، وهذا عند أبي يوسف؛ لأنه وكيل عنه، وخالفه محمد كما في البحر: أي لأنه وكيل الفقراء عنده، وأما عزل القاضي للناظر فقدمنا الكلام عليه عند قوله: وينزع لو غير مأمون إلخ (قوله: به يفتى) والذي في التجنيس: والفتوى على قول محمد أي بعدم العزل عند عدم الشرط، وجزم به في تصحيح القدوري العلامة قاسم، وكذلك المؤلف أي ابن نجيم في رسائله، وهو من باب الاختلاف في الاختيار. اهـ. بيري أي فيه اختلاف التصحيح. قلت: وهو مبني على الاختلاف في اشتراط التسليم إلى المتولي، فإنه شرط عن محمد، فلا تبقى للواقف ولاية إلا بالشرط، وغير شرط عند أبي يوسف فتبقى ولايته، فاختلاف التصحيح هنا مبني على اختلافه هناك. مطلب في عزل الواقف المدرس والإمام وعزل الناظر نفسه.
(قوله: ولم أر حكم عزله لمدرس وإمام ولا هما) أقول: وقع التصريح بذلك في حق الإمام والمؤذن، ولا ريب أن المدرس كذلك بلا فرق. ففي لسان الحكام عن الخانية: إذا عرض للإمام والمؤذن عذر منعه من المباشرة ستة أشهر للمتولي أن يعزله ويولي غيره، وتقدم ما يدل على جواز عزله إذا مضى شهر بيري. أقول: إن هذا العزل لسبب مقتض والكلام عند عدمه ط. قلت: وسيذكر الشارح عن المؤيدة التصريح بالجواز لو غيره أصلح، ويأتي تمام الكلام عليه، وقدمنا عن البحر حكم عزل القاضي المدرس ونحوه، وهو أنه لا يجوز إلا بجنحة وعدم أهلية‘‘.
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200398

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں