بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح کے ولی اور وکیل میں فرق


سوال

نکاح میں جو ولی اور وکیل ہوتا ہے ان میں کیا فرق ہے؟

جواب

’’ولی‘‘ اور  ’’وکیل‘‘ شرعی و فقہی اصطلاحات ہیں، جو  ایک ہی فرد میں بھی جمع ہوسکتی ہیں، یعنی ایک ہی شخص ولی اور وکیل دونوں ہوسکتاہے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ دونوں الگ الگ ہوں۔ ’’ولی‘‘ ولایت سے ہے اور ولایت سرپرستی کو کہتے ہیں، نکاح میں دولہے یا دولہن کا ولی اس دولہے یا دولہن کا وہ سرپرست ہے جس کو شریعت نے سرپرست مقرر کیا ہے ،  یعنی  اگر بیٹا ہو (مثلاً: کسی بیوہ یا مطلقہ کا نکاح ہورہاہو) تو سب سے پہلے ولایت  بیٹے کو حاصل ہوگی،  اگر وہ نہ ہو تو پوتے کو۔  اور اگر وہ نہ ہو  یا کسی کنواری کا نکاح ہورہاہو تو باپ ولی ہوگا، وہ نہ ہو تو دادا۔  اور اگر وہ بھی نہ ہو تو سگا بھائی، اور اگر وہ بھی نہ ہو تو باپ شریک بھائی۔ اور اگر وہ  بھی نہ ہو تو سگے بھائی کا بیٹا (بھتیجا)، اور اگر وہ نہ ہو تو باپ شریک بھائی کا بیٹا، اور اگر وہ نہ ہو تو سگا  چچا، وہ بھی نہ ہو تو چچا کا بیٹا …الخ۔ یعنی ولایت کی وہی ترتیب ہے جو میراث میں عصبہ بنفسہ کی ہوتی ہے۔ عصبہ اس قریبی خونی رشتہ دار کو کہتے ہیں جس سے رشتے میں عورت کا واسطہ درمیان میں نہ آتاہو،  وہ درجہ بدرجہ ولی بنتاہے۔

’’وکیل‘‘  وکالت سے ہے اور وکالت کہتے ہیں کسی کا معاملہ اس کے نمائندے کی حیثیت سے انجام دینا یا پیش کرنا۔ نکاح میں دولہے یا دولہن کا وکیل وہ شخص ہوتا ہے جس کو دولہے یا دولہن نے اپنا نکاح کرانے کی اجازت دی ہو۔

عموماً دولہا مجلسِ عقد میں موجود ہوتاہے اور اپنا عقد خود انجام دیتاہے، اس لیے اس کے ولی اور وکیل کی ضرورت نہیں ہوتی، البتہ بعض صورتوں میں اس کی ضرورت ہوسکتی ہے۔ جب کہ لڑکی کے لیے پردے وغیرہ کے شرعی احکام اور فطری حیا کی وجہ سے دلہن عقدِ نکاح کی مجلس میں حاضر بھی نہیں ہوتی اور اپنا عقد خود انجام بھی نہیں دیتی، لہٰذا اس کے لیے ولی اور وکیل کی ضرورت ہوتی ہے، اب نکاح میں ولی اور وکیل دونوں ایک ہی شخص ہوسکتے ہیں، یعنی لڑکی کا باپ جو شرعی طور پر از خود ولی/ سرپرست ہوتاہے وہی نکاح کے عقد کی انجام دہی کے لیے دلہن کی طرف سے وکیل بن جائے اس کی بھی اجازت ہے۔ 

اور یہ بھی ممکن ہے کہ لڑکی کے والد (ولی) کی موجودگی میں کسی اور کو عقدِ نکاح کا معاملہ انجام دینے کا وکیل بنادیا جائے، مثلاً: والد کی موجودگی میں چچا یا بھائی کو نکاح کا وکیل بنا دیا جائے، اس کی بھی اجازت ہے۔ 

اس تفصیل سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ دولہے یا دولہن کا ولی تو شرعی طور پر طے ہے، یعنی ولایت غیر اختیاری معاملہ ہے جب کہ وکیل بنانا دولہے یا دولہن کے اپنے اختیار میں ہے۔

"قال الحنفية: الولي في النكاح العصبة بنفسه وهو من يتصل بالميت حتى المعتق بلا توسط أنثى على ترتيب الإرث والحجب، فيقدم الابن على الأب عند أبي حنيفة وأبي يوسف خلافاً لمحمد حيث قدم الأب، وفي الهندية عن الطحاوي: إن الأفضل أن يأمر الأب الابن بالنكاح حتى يجوز بلا خلاف، وابن الابن كالابن، ثم يقدم الأب، ثم أبوه، ثم الأخ الشقيق، ثم لأب، ثم ابن الأخ الشقيق، ثم لأب، ثم العم الشقيق، ثم لأب، ثم ابنه كذلك، ثم عم الأب كذلك، ثم ابنه كذلك، ثم عم الجد كذلك، ثم ابنه كذلك". (الموسوعة الفقهية الكويتية، ۴۱ / ۲۷۵،طبع الوزارة) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200769

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں