بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح کے وقت لڑکی کے والد کے نام میں غلطی کا حکم


سوال

زیدنےجس عورت سے شادی کی ہےاس کی پہلے فوت شدہ شوہرسےدو بیٹیاں ہیں۔ اب ان میں سےایک لڑکی کانکاح زیدنےایک لڑکے سے کیا، نکاح کے وقت زیدنے لڑکی کےحقیقی باپ کی جگہ اپنانام بتایا اوراسی پر اصرارکیا؛ تاکہ کسی کو پتا نہ چلے کہ لڑکی کا حقیقی باپ کوئی اور ہے تونکاح ہوا کہ نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ اگر مجلسِ نکاح میں ایجاب و قبول کے دوران لڑکی کا وکیل لڑکی کے والد کے نام میں غلطی کردے ،یعنی لڑکی کا نام لیتے ہوئے اس کے ساتھ حقیقی والد کے بجائے کسی اور (مثلا سوتیلے والد یا مربی) کا نام لے اور اس کی طرف لڑکی کو منسوب کرے تو اس لڑکی کا نکاح صحیح نہیں ہوگا،  البتہ اگر لڑکی خود مجلسِ نکاح میں حاضر ہو اور بجائے وکیل کے خود ایجاب و قبول کرے یا اس کی طرف اشارہ کر کے ایجاب و قبول کیا جائے تو ولدیت کی غلطی کی صورت میں نکاح صحیح ہوجائے گا۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ لڑکی مجلسِ نکاح میں موجود نہ ہو ، یا موجود تو ہو لیکن اس نے نہ تو خود ایجاب و قبول کیا ہو اور نہ ہی  ایجاب و قبول کے دوران اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہو تو اس کا نکاح  نہیں ہوا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 26)

'' (غلط وكيلها بالنكاح في اسم أبيها بغير حضورها لم يصح)؛ للجهالة وكذا لو غلط في اسم بنته إلا إذا كانت حاضرةً وأشار إليها فيصح۔

(قوله: لم يصح)؛ لأن الغائبة يشترط ذكر اسمها واسم أبيها وجدها، وتقدم أنه إذا عرفها الشهود يكفي ذكر اسمها فقط خلافاً لابن الفضل، وعند الخصاف يكفي مطلقاً، والظاهر أنه في مسألتنا لا يصح عند الكل؛ لأن ذكر الاسم وحده لا يصرفها عن المراد إلى غيره، بخلاف ذكر الاسم منسوباً إلى أب آخر، فإن فاطمة بنت أحمد لا تصدق على فاطمة بنت محمد، تأمل، وكذا يقال فيما لو غلط في اسمها، (قوله: إلا إذا كانت حاضرةً إلخ) راجع إلى المسألتين: أي فإنها لو كانت مشاراً إليها وغلط في اسم أبيها أو اسمها لا يضر؛ لأن تعريف الإشارة الحسية أقوى من التسمية، لما في التسمية من الاشتراك لعارض فتلغو التسمية عندها، كما لو قال: اقتديت بزيد هذا، فإذا هو عمرو، فإنه يصح''۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200458

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں