بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نکاح فضولی فعلاً قبول کرنے کے حوالہ جات


سوال

 آپ نے ایک سوال(فلاں لڑکی کے علاوہ کسی اور سے نکاح کیا تو اسے طلاق ) کے جواب میں یہ مذکورہ تحریر لکھی ہے ،ہمیں اس کے کچھ دلائل چاہییں:

مذکورہ صورت میں آپ کے دوست نے جس لڑکی کا استثنا کیا ہے ، اس کے علاوہ کسی بھی لڑکی سے از خود نکاح کیا تو طلاق واقع ہو جائے گی، البتہ اگر کوئی اور شخص آپ کے دوست کی اجازت یا حکم کے بغیر اس کا کسی لڑکی سے نکاح کرادے اور پھر اس کو اطلاع کرے اور وہ زبان سے کچھ کہے بغیر مہر ودیگر ازدواجی حقوق ادا کر کے عملی طورپرضامندی ظاہر کر دے تو اس صورت میں نکاح ہو جائے گا اور طلاق بھی واقع نہیں ہو گی۔     اگر خود بھی نکاح کرلیا تو صرف ایک طلاق ہوگی اور اس کے بعد دوبارہ نکاح کرنا جائز ہوگا اور دوبارہ نکاح کے بعد شوہر کو صرف دو طلاقوں کا اختیار ہوگا۔

جواب

مذکورہ مسئلہ کے کچھ دلائل درج ذیل ہیں:

"فتاوی التاتارخانیۃ" میں ہے:

" وفي الحجة: وحکي أن أئمة اسروشنة کتبوا الی أئمة سمرقند منهم أبو أحمد العیاضی وإلی أئمة بخارا منهم محمد بن إبراهیم المیداني: أن علماء عصرنا یختلفون في مسألة نکاح الفضولي، منهم من سوی بین الإجازة بالقول والفعل أنه لا یحنث فیهما، ومنهم من قال: یحنث فیهما، ومنهم من قال: یحنث بالقول دون الفعل، ما اتفقوا علی شيء یجري علیه ولا یختلف، فذکر الإمام أبو أحمد العیاضي ذلک لأئمة عصره وأئمة بخارا، فاجتمعوا وتکلموا في هذه المسألة وجری الکلام بینهم یومین من أول النهار إلی آخره بالنظر والاستدلال والإنصاف وطلب الصواب وابتغاء الثواب، فوقع اتفاقهم علی أنه لایحنث الحالف بالإجازة بالفعل ویحنث بالقول وهو أوسط الأقاویل"۔ (۶۱۰/۳)
وفي الدرالمختار(۳۵۲/۳):

"(وفيها ) كلها ( تنحل ) أي تبطل ( اليمين ) ببطلان التعليق ( إذا وجد الشرط مرةً إلا في كلّما فإنّه ينحل بعد الثلاث ) ؛ لاقتضائها عموم الأفعال كاقتضاء كل عموم الأسماء ( فلا يقع إن نكحها بعد زوج آخر إلا إذا دخلت ) كلّما ( على التزوج نحو كلّما تزوجت فأنت كذا )؛ لدخولها على سبب الملك وهو غير متناه"۔

 

في البحرالرائق:

"(حلف لا يتزوّج فزوّجه فضولي وأجاز بالقول حنث وبالفعل لا ) أي لا يحنث، وهذا هو المختار كما في التبيين، وعليه أكثر المشايخ والفتوى عليه كما في الخانية"۔(۶۲۰/۴)کتاب الایمان، باب الیمین فی الضرب والقتل) (ط رشیدیه)
 

وفي فتح القدیر:

"وفي الإجازة بالفعل اختلاف المشايخ قال شمس الأئمة: والأصح عندي لا يحنث؛ لأن عقد النكاح يختص بالقول فلا يمكن جعل المجيز بالفعل عاقداً له"۔(۱۷۵/۵)[باب الیمین۔الخ]
 

وفی الهندیة:

"إذا قال: كل امرأة أتزوجها فهي طالق، فزوّجه فضولي وأجاز بالفعل بأن ساق المهر ونحوه لا تطلق" ۔الخ۔(۴۱۹/۱):(الفصل الثانی فی تعلیق الطلاق بکلمة کل وکلما)
 

وفي الدرالمختار :

"( حلف لا يتزوج فزوجه فضولي فأجاز بالقول حنث وبالفعل ) ومنه الكتابة خلافا لابن سماعة ( لا ) يحنث به يفتى" ۔(۸۴۶/۳) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143905200052

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں