بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

زبان سے نماز کی نیت کرنا


سوال

فرض نماز کی نیت زبان سے بھی کرسکتے ہیں ؟ یا یہ بدعت ہے? سنت اور نفل نماز کی نیت کے بارے میں بتا دیں، مرد اور عورت دونوں کے حوالے سے۔

جواب

نیت کرنے سے مقصود شرعاً دو چیزیں ہیں:

 (۱)  عبادات کو عادات سے امتیاز کرنا (مثلاً: کھڑا ہونا کبھی محض طبعی خواہش کی بنا پر ہوتا ہے اور یہی کھڑا ہونا جب نماز کی نیت سے ہو تو عبادت بن جاتا ہے)

(۲)  بعض عبادات کو بعض سے ممتاز کرنا (مثلاً: ظہر اور عصر کی رکعات ایک جیسی ہیں, مگر نیت الگ الگ ہونے سے یہ الگ الگ عبادتیں قرار پاتی ہیں)

نیت صرف دل سے ارادہ کرلینے کا نام ہے، لہٰذا نیت کی صحت کے لیے زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنا لازم نہیں ہے، زبان سے نیت کا ادا کرنا بھی جائز ہے ، بدعت نہیں ہے، اور جو شخص زبان سے الفاظِ نیت ادا کیے بغیر اپنے دل کو مستحضر کرنے پر قادر نہ ہو تو اس کے لیے زبانی نیت کرنا بھی کافی ہے؛ بلکہ بہتر ہے۔ فرض، سنت اور نفل سب کا یہ حکم ہے۔

اکیلے نماز پڑھنے والے کے لیے صرف دل سے یہ ارادہ کرلینا کافی ہے کہ میں فلاں وقت کی فرض نماز (مثلاً ظہر، عصر) ادا کر رہا ہوں (تعدادِ رکعات اور قبلہ رخ ہونے کی نیت لازم نہیں) اور جماعت میں شامل ہونے والے مقتدی کے لیے دوباتوں کی نیت ضروری ہے: اول یہ کہ متعین کرے کہ کون سی نماز پڑھ رہا ہے؟ دوسرے یہ نیت کرے کہ میں اس محراب میں کھڑے ہوئے امام کی اقتدا میں نماز پڑھ رہا ہوں، اور  جماعت کی نماز میں امام کے امام بننے کے لیے یہ لازم نہیں ہے کہ وہ نماز کے ساتھ اپنے امام ہونے کی بھی نیت کرے؛ بلکہ امامت کی نیت کے بغیر بھی مقتدیوں کے لیے اس کی اقتداکرنا درست ہوجائے گا، تاہم امام کو امامت کا ثواب اسی وقت ملے گا جب کہ امامت کی نیت کرے۔

نیز عام نمازوں میں (جن میں مجمع زیادہ نہیں ہوتا) عورتوں کی نماز باجماعت میں شمولیت اسی وقت درست ہوگی جب کہ امام (عموماً یا خصوصاً) ان کی اقتدا کی بھی نیت کرے، اگر امام نے عورتوں کی نیت نہیں کی تو مقتدی عورتوں کی نماز درست نہ ہوگی؛ البتہ جمعہ وعیدین (یا جہاں مجمع کثیر ہو مثلاً حرمین شریفین) میں امام کی نیت کے بغیر بھی عورتوں کی اقتدا درست ہے، (لیکن موجودہ دور میں عورتوں کا مسجد میں باجماعت نماز پڑھنے کے لیے آنا مکروہ تحریمی ہے)۔

باقی سننِ مؤکدہ میں صرف یہ نیت کافی ہے کہ میں اتنی رکعت نماز پڑھ رہا ہوں، یہ کہنا لازم نہیں کہ میں مثلاً: فجر یا ظہر کی سنت ادا کررہا ہوں، اس تعیین کے بغیر بھی سنتیں ادا ہوجاتی ہیں(اور اگر کوئی متعین کرلے تو کوئی حرج بھی نہیں)، اور نفل نمازوں میں صرف یہ نیت کافی ہے کہ میں نماز پڑھ رہا ہوں وقت وغیرہ کی تعیین ضروری نہیں ہے۔ (کتاب المسائل) ۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200913

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں