بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز میں وسوسہ آنے پر تعوذ اور تھوکنے کا حکم / وبا اور بمباری سے بھاگنا


سوال

۱)  نماز میں جب وسوسہ آۓ تو  ’’ أعوذبالله من خنزب‘‘  کہہ کر بائیں طرف تھوکنے کا شرعی حکم کیا ہے،جیسا حدیث پاک میں آیا  ہے؟

۲)  جہاں کوئی وبا پھوٹے وہاں سے بھاگنے کے حکم میں اور جہاں بمباری ہورہی ہو  وہاں سے بھاگنے کا حکم جان بچا نے کے لیے کیا  ہے؟ کیا دونوں موقعوں پر ایک ہی حکم لاگو ہوگا یا الگ الگ؟  اگر الگ ہے تو وجہ کیاہے?

جواب

1۔۔ نماز میں  وسوسہ آجائے تو اس کا علاج یہ ہے  کہ اس کو شیطانی وسوسہ سمجھ کر اس کی طرف التفات نہ کیا جائے، اور اللہ کی عظمت اور جلال کا تصور کرتے  ہوئے نماز پوری کرلی جائے اور یہ تصور کیا جائے  کہ میں اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہوں اور وہ مجھے دیکھ رہا ہے ، اور ہر رکن  کے آداب کی رعایت رکھے ،  اور وسوسہ کی طرف دھیان نہ دے ، قاسم بن محمد رحمہ اللہسے ایک شخص نے عرض کیا:  مجھے اپنی نماز میں وہم ہوتا ہے ، جس کی وجہ سے مجھے بہت گرانی ہوتی ہے، تو انہوں نے فرمایا: (تم اس طرح کے خیال پر دھیان نہ دو اور)  اپنی نماز پوری کرو، اس لیے وہ شیطان تم سے جب ہی دور ہوگا کہ تم اپنی نماز پوری کرلو، اور  کہو کہ ہاں میں نے اپنی نماز پوری نہیں کی" یعنی اس وسوسہ کے باوجود نماز پوری کرلو اور شیطان کے کہنے میں نہ آؤ۔ 

مشكاة المصابيح (1/ 29):
’’وَعَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَهُ فَقَالَ: «إِنِّي أهم فِي صَلَاتي فيكثر ذَلِك عَليّ؟ فَقَالَ الْقَاسِم بن مُحَمَّد: امْضِ فِي صَلَاتك؛ فَإِنَّهُ لن يذهب عَنْكَ حَتَّى تَنْصَرِفَ وَأَنْتَ تَقُولُ: مَا أَتْمَمْتُ صَلَاتي». رَوَاهُ مَالك‘‘.

باقی نماز میں وسوسہ دور کرنے کے لیے ’’اعوذ باللہ‘‘ زبان  سے نہیں پڑھنی چاہیے،  بلکہ  دل ہی دل میں وسوسہ دور کرنے کے لیے پڑھ لی جائے،لیکن اگر وسوسہ دور کرنے کے لیے زبان سے پڑھ لی تو نماز فاسد نہ ہوگی، اسی طرح تین مرتبہ تھوکنا بھی نہیں چاہیے یہ عمل کثیر ہوجائے گا جس سے نماز فاسد ہوجائے گی، جہاں تک حدیث میں اس کا ذکر ہے تو اس کی تفصیل یہ  ہے کہ حدیث مبار ک میں ہے:

حضرت عثمان بن ابوالعاص  رضی اللہ عنہسے روایت ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ ! شیطان میری نماز اور قرأت کے درمیان حائل ہوتا اور مجھ پر نماز میں شبہ ڈالتا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وہ شیطان ہے جسے ’’خنزب‘‘  کہا جاتا ہے، جب تو ایسی بات محسوس کرے تو اس سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کر اور اپنے بائیں جانب تین مرتبہ تھوک دیا کر، پس میں نے ایسے ہی کیا تو شیطان مجھ سے دور ہوگیا۔
صحيح مسلم (4/ 1728):
’’أن عثمان بن أبي العاص، أتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله إن الشيطان قد حال بيني وبين صلاتي وقراءتي يلبسها علي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ذاك شيطان يقال له خنزب، فإذا أحسسته فتعوذ بالله منه، واتفل على يسارك ثلاثاً» قال: ففعلت ذلك فأذهبه الله عني‘‘.

اس حدیث  کی شرح میں ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ  اس حدیث کا تعلق اس وسوسہ سے ہے جو نماز شروع کرنے سے پہلے ہوتا ہو، لہذا جس شخص نے نماز شروع نہیں کی  اس کو اگر وسوسہ آجائے تو وہ  تعوذ پرھ کر بائیں طرف تین بار تھوک دے ۔ 

دوسری توجیہ اس کی یہ بیان کی گئی ہے کہ  یہ حکم اس وقت تھا جب نماز میں باتیں کرنا جائز تھا ، پھر یہ حکم منسوخ ہوگیا۔ اور تیسری توجیہ شراح حدیث نے یہ ذکر کی ہے کہ یہ حکم اس  نمازی کو ہے جو نماز سے فارغ ہوچکا ہو، نماز کے بعد اب یہ عمل کرلو کہ شیطان سے بدلہ ہوجائے اور آئندہ نماز میں تنگ نہ کرے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (1/ 146):
’’ ( «قال: قلت يا رسول الله! إن الشيطان قد حال بيني، وبين صلاتي، وبين قراءتي» ) أي: يمنعني من الدخول في الصلاة، أو من الشروع في القراءة بدليل تثليث التفل، وإن كان في الصلاة، وليتفل ثلاث مرات غير متواليات، ويمكن حمل التفل والتعوذ على ما بعد الصلاة، والمعنى جعل بيني وبين كمالهما حاجزاً من وسوسته المانعة من روح العبادة، وسرها، وهو الخشوع والخضوع‘‘. 

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

’’"نماز میں  وسوسہ دفع کرنے کے لیے بار بار اعوذ باللہ الخ پڑھنے کی ہدایت صحیح نہیں  ہے ۔ اگر چہ نماز فاسد ہونے میں  فقہاء  کااتفاق نہیں  ہے، مگر کراہت سے خالی نہیں  ۔ ’’ولو حوقل لدفع الوسوسة، إن لأمور الدنیا تفسد، لا لأمور الاٰ خرة‘‘. (درمختار ج۱ ص ۵۸۱ باب ما یفسد الصلاة وما یکره فیها)(یعنی اگر نماز ی نے لاحول ولا قوۃ الخ پڑھا تو اگر دنیوی امور کے لیے وسوسہ ہے تو نماز فاسد ہوگی اور اگر امورِ آخرت کے لیےہے تو نماز فاسد نہ ہوگی ) ’’ولو تعوذ لد فع الوسوسة لا تفسد مطلقاً (الی قوله:) ولو تعوذ لدفع الوسوسة لاتفسد مطلقاً نظر؛ إذ لا فرق بینها وبین الحوقلة، فلیتا مل‘‘. (طحطاوي علی الدر المختار ج۱ ص ۴۱۶ باب ما یفسد الصلاة ویکرہ فیها ) (فتاوی رحیمیہ 5/'126)

2۔۔ جہاں وبا  پھیلی ہوئی وہاں جانا یا وہاں موجود ہونے کی صورت میں وہاں سے فرار ہونے کی غرض سے بھاگنا  دونوں منع ہیں، "حضرت اسامہ بن زید سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے طاعون کا ذکر کیا تو فرمایا: یہ بنی اسرائیل کی ایک جماعت کی طرف بھیجے جانے والا عذاب کا بچا ہوا حصہ ہے، پس اگر کسی جگہ میں یہ وبا پھیلی ہوئی ہو اور تم وہیں ہو تو وہاں سے فرار نہ اختیار کرو، اگر تم اس جگہ نہیں ہو جہاں طاعون پھیلا ہو تو وہاں نہ جاؤ"۔

سنن الترمذي (3/ 370):
’’عن أسامة بن زيد، أن النبي صلى الله عليه وسلم ذكر الطاعون، فقال: «بقية رجز، أو عذاب أرسل على طائفة من بني إسرائيل، فإذا وقع بأرض وأنتم بها فلا تخرجوا منها، وإذا وقع بأرض ولستم بها فلا تهبطوا عليها»‘‘ .

اس کی وجہ کیا ہے ؟ اس  کے متعلق مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ صاحب تحریر فرماتے ہیں :

" جس  جگہ طاعون ہو وہاں سے نکلنا اور وہاں  جانا دونوں ممنوع ہیں ۔ وہاں  جانے کی ممانعت تو اس  وجہ سے ہے کہ خدا نخواستہ وہاں جاکر اگربتقدیرِ الہی مبتلائے مرض  ہوگیا تواندیشہ ہے کہ اس کاعقیدہ بگڑ جائے اور خیال کرے کہ یہاں آنے سے یہ مرض لاحق ہوگیا، اگر نہ آتا تو بچ جاتا  حال آں کہ مرض اس کے لیے بہرحال مقدر تھا  خواہ یہاں آتاخواہ نہ آتا،  نیز  چوں کہ اس مقام کی آب و ہوا خراب ہے اور  اسبابِ مرض منتشر  ہورہے ہیں  تو وہاں جانا گویا  آگ لگے ہوئے مکان میں گھسنے اور جل جانے کے مشابہ ہے، اگرچہ حقیقتہً دونوں میں فرق ہے۔ اور وہاں سے نکلنا اس لیے ممنوع ہے کہ اول تو تقدیرِ الہی سے بھاگنا ہے، چناں چہ حدیث شریف میں ہے  ’’فلا تخرجوا فرارًامنه‘‘  یعنی  طاعون سے بھاگنے کے ارادے سے وہاں  نہ نکلو ۔ دوسرے  یہ کہ اجازت دینے میں دوسرے مسلمانوں اور مریضوں کو جو اس کی امداد و اعانت کے محتاج ہیں، نقصان پہنچے گا اور انہیں تکلیف ہوگی، ان کی دوا، علاج اور خدمت میں فتور آئے گا ، لیکن  اگر یہ دونوں باتیں نہ ہوں یعنی نکلنے میں طاعون سے بھاگنے کا خیال نہ ہو، بلکہ محض  اسبابِ مرض سے بچنے اور آب و ہوا بدلنے کا خیال ہو اور اس کے نکلنے سے  ساکنانِ  قریہ کو کوئی تکلیف نہ پہنچے اور وہ اس طرح کہ نکلنے والے اس بستی   سے باہررہ کر ان سے قریب رہیں اور اہلِ  قریہ کی  خبر رکھیں تو ایسے نکلنے میں مضائقہ نہیں؛ کیوں کہ اس صورت میں علتِ ممانعت پائی  نہیں جاتی،  لیکن اسی قریہ میں صبر و استقامت کے ساتھ  رہنے میں بہرحال زیادہ ثواب ہے۔ " (9/247)

لیکن بمباری میں ایسا نہیں ہے، بلکہ اپنے آپ کو ہلاکت سے بچانے کی کوشش ہے،  گویا دشمن کے حملہ سے اپنے آپ کو بچانا ہے جس کے جواز میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143907200057

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں