نماز میں درودشریف قصداً یا بھول کر نہ پڑھا جائے تو اس طرح نماز ہو جاۓ گی؟
قعدہ اخیرہ میں درود شریف پڑھنا سنت ہے، اور سنت کے ترک سے نماز ہوجاتی ہے، سجدہ سہو واجب نہیں ہوتا، لیکن نماز کا ثواب کم ہوجاتاہے۔ اور اگر کوئی جان بوجھ کرسنت کو چھوڑے یا سنت ترک کرنے کی عادت بنالے تو وہ گناہ گار بھی ہوگا، اور نبی کریم ﷺ کی شفاعت سے محروم بھی ہوگا۔
لہٰذا اگر کوئی قعدہ اخیرہ میں درود شریف نہیں پڑھتا تو اس کی نماز ہوجائے گی، لیکن قصداً درود شریف چھوڑنے کی صورت میں نماز کا اعادہ بہتر ہے، بالخصوص درود شریف کے ترک سے اعادہ کی اہمیت اس لیے زیادہ ہے کہ امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ کے ہاں قعدہ اخیرہ میں درود شریف فرض ہے، اور احناف کے ہاں بھی انتہائی تاکیدی سنت ہے، لہذا جلدی کی صورت میں بھی اللّٰهم صل على محمد تک پڑھ لینا چاہیے ۔قال في الدر:
"وسنة في الصلوٰة ومستحبة في كل أوقات الإمكان".
وفي الشامية:
( قوله: سنة في الصلوٰة ) أي في قعود أخير مطلقاً، وكذا في قعود أول في النوافل غير الرواتب، تأمل. وفي صلوة الجنازة". ( رد المحتار ، ص 483 ج 1 )
وفي سنن الصلوة من الدر:
"ترك السنة لايوجب فساداً ولا سهواً بل أساءةً لوعامداً غير مستخف".
وفي الشامية:
"فلوغير عامد فلا أساءة أيضاً، بل تندب إعادة الصلوة كما قد مناه في أول بحث الواجبات". ( رد المحتار ، ص 442 ج 1 )
ونصه هناك "أقول: وقد ذكر في الإمداد بحثاً أن كون الأعادة بترك الواجب واجبة لايمنع أن تكون الإعادة مندوبةً بترك السنة ا ه ونحوه في القهستاني بل قال في فتح القدير: والحق التفصيل بين كون تلك الكراهة كراهة تحريم فتجب الأعادة وتنزيه فتستحب ا ه". ( رد المحتار ، ص 425 ج 1 )فقط واللہ تعالی اعلم
فتوی نمبر : 144004201088
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن