بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز روزے کا فدیہ / حیلہ اسقاط


سوال

مرحوم 29 رمضان کو وفات پاگئے ہیں اور انہوں نے فدیہ کی وصیت کی ہے، جس میں 12 روزے ہیں اور نمازیں بھی، لیکن نمازوں کی تعداد معلوم نہیں ہے، ورثاء میں 4 بیٹے اور 5 بیٹیاں ہیں ،اب نمازوں کا فدیہ کیسے ادا کیا جائے جب کہ تعدداد معلوم نہیں؟ نیز اگر فدیہ میں ترکہ پورا نہ ہو تو حیلہ اسقاط کرسکتے ہیں ؟

جواب

مرحوم نے اپنے باقی ماندہ روزوں اور نمازکے فدیہ اداکرنے کی وصیت کی ہے تو مرحوم کے کل ترکہ کے ایک تہائی سے ان کی وصیت کو پورا کرنا ورثاء پر لازم ہے، اگر ایک تہائی ترکہ سے فدیہ پورا نہ ہو تو باقی ادا کرنا ورثاء پر لازم نہیں، البتہ اگر تمام ورثاء عاقل بالغ ہوں اور وہ باہمی رضامندی سے یہ چاہیں کہ ہم اپنے والد کا فدیہ اداکردیں تو بقیہ مال سے بھی فدیہ ادا کیا جاسکتا ہے، البتہ اس میں بہتر  صورت یہ ہے کہ ترکہ تقسیم کردیا جائے پھر جو وارث اپنی خوشی سے فدیہ ادا کرنا چاہے وہ ادا کردے ۔

نمازوں کی تعداد معلوم نہ ہونے کی صورت میں مرحوم کی نماز سے متعلق عمومی عادت کو دیکھا جائے کہ نماز کی ادائیگی کی کتنی پابندی کرتے تھے، بیماری کے ایام کے معمولات کا جائزہ لیا جائے، پھر اندازے سے تعداد مقرر کرلی جائے۔

اگر ورثاء  اصحابِ استطاعت ہوں تو  اپنے مال سے مرحوم کی نمازوں اور روزوں کا فدیہ ادا کردیں۔ اور اگر ورثاء  کے پاس بھی گنجائش نہ ہو تو فقہاء نے شرائط کے ساتھ حیلہ اسقاط کی گنجائش ذکر کی ہے، اور اس کی جائز صورت یہ ہے کہ:  ورثاء  فدیہ کی نیت سے کچھ رقم کسی غریب و نادار مستحقِ زکاۃ کو دے کر اس کو اس رقم کا اس طرح مالک بنادیں کہ اگر وہ مستحق رقم واپس کرنے کے بجائے خود استعمال کرلے تو ورثاء کو کوئی اعتراض نہ ہو  اور وہ مستحق شخص یہ سمجھتا ہو کہ اگر میں یہ رقم مرحوم کے ورثاء  کو واپس نہ کروں تو انہیں واپس لینے کا اختیار نہیں ہے، پھر وہ مستحق کسی قسم کے جبر  اور دباؤ کے بغیر اپنی خوشی سے وہ رقم ورثاء  کو واپس کردے اور پھر ورثاء  اسی مستحق کو یا کسی اور مستحق کو اسی طرح مذکورہ طریقے کے مطابق وہ رقم دے دیں اور وہ بھی اپنے آپ کو با اختیار مالک سمجھتے ہوئے اپنی خوش دلی سے  انہیں واپس کردے، اس طرح باربار  ورثاء  یہ رقم کسی مستحق کو  دیتے رہیں اور وہ اپنی خوشی و مرضی سے واپس کرتا رہے، یہاں تک کہ مرحو م کی قضا شدہ نمازوں کے فدیہ کی مقدار ادا ہوجائے تو اس طرح فدیہ ادا ہوجائے گا اور اب وہ رقم سب سے آخر میں جس نادار ومستحق شخص کو ملے گی وہی اس رقم کا مالک ہوگا اور اسے ہر طرح اس رقم کو خرچ کرنے کا اختیار ہوگا، نیز آخر میں ورثاء  کا رقم کو آپس میں تقسیم کرنا یا کسی غنی ومال دار اور غیر مسکین کا اس رقم کو لینا جائز نہ ہوگا، اور نہ ہی  اس آخری مستحق شخص پر رقم کی واپسی کے لیے کسی قسم کا دباؤ وغیرہ ڈالنا درست ہوگا۔ 

ورثاء  کی ناداری کی بنا پر اور مالی گنجائش نہ ہونے کی صورت میں مذکورہ تفصیلی شرائط کے ساتھ حیلہ کرنے کی گنجائش ہے، اس کے علاوہ حیلہ اسقاط کی دیگر مروجہ صورتیں جائز نہیں۔ 

(تفصیل کے لیے دیکھیں : مفتی شفیع رحمہ اللہ کا رسالہ "حیلہ اسقاط" جو جواہر الفقہ کے نئے طبع کی جلد اول میں شامل ہے، اور نظام الفتاوی ص ۱۱۷ ج٦)

نیز درج ذیل لنک پر تفصیلی فتویٰ ملاحظہ ہو:

http://www.banuri.edu.pk/readquestion/%D8%AD%DB%8C%D9%84%DB%81-%D8%A7%D8%B3%D9%82%D8%A7%D8%B7-%DA%A9%D8%A7-%D8%AD%DA%A9%D9%85/01-01-2018فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200831

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں