بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نماز جنازہ میں سترہ کا حکم


سوال

جنازہ میں سترہ کا کیا حکم ہے؟

جواب

نمازِ جنازہ میں چوں کہ امام کے سامنے جنازہ رکھا ہوتا ہے اور  وہ سترہ کے قائم مقام ہوجاتا ہے؛ اس لیے نمازِ جنازہ میں امام کے سامنے الگ سے سترہ رکھنے کی ضرورت نہیں، اور امام کا سترہ مقتدیوں کو بھی کافی ہو جاتا ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 636)

"(ويغرز) ندباً، بدائع (الإمام) وكذا المنفرد (في الصحراء) ونحوها (سترةً بقدر ذراع) طولاً (وغلظ أصبع)؛ لتبدو للناظر (بقربه) دون ثلاثة أذرع (على) حذاء (أحد حاجبيه) ما بين عينيه، والأيمن أفضل ... (وكفت سترة الإمام) للكل.

 (قوله: ندباً)؛ لحديث: «إذا صلى أحدكم فليصل إلى سترة، ولا يدع أحداً يمر بين يديه». رواه الحاكم وأحمد وغيرهما، وصرح في المنية بكراهة تركها، وهي تنزيهية. والصارف للأمر عن حقيقته ما رواه أبو داود عن الفضل والعباس: «رأينا النبي صلى الله عليه وسلم في بادية لنا يصلي في صحراء ليس بين يديه سترة».

وما رواه أحمد: " أن ابن عباس صلى في فضاء ليس بين يديه شيء، كما في الشرنبلالي (قوله: وكذا المنفرد) أما المقتدي فسترة الإمام تكفيه، كما يأتي (قوله: ونحوها) أي من كل موضع يخاف فيه المرور. قال في البحر عن الحلية: إنما قيد بالصحراء؛ لأنها المحل الذي يقع فيه المرور غالباً، وإلا فالظاهر كراهة ترك السترة فيما يخاف فيه المرور أي موضع كان ... ولذا قال ابن الهمام: والسنة أولى بالاتباع مع أنه يظهر في الجملة إذ المقصود جمع الخاطر بربط الخيال به كي لا ينتشر، كذا في البحر وشرح المنية ... (قوله: للكل) أي للمقتدين به كلهم".

احسن الفتاویٰ میں ہے:

"سامنے سے گزرنے کی مانعت عام نمازوں کے لیے ہے، نمازِ جنازہ میں جائز ہے، نیز امام کے سامنے جنازہ کا سترہ ہے، اور امام کا سترہ مقتدیوں کو بھی کافی ہے"۔ (کتاب الصلاۃ، باب الجنائز، ج:۴ ؍ ۲۳۹ ، ط: ایچ ایم سعید ) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143908200870

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں