بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نمازِ جنازہ میں ایک سلام ہیں یا دو سلام؟


سوال

احناف کے نزدیک نمازِ جنازہ میں دو سلام ہیں، جب کہ یہاں حرمین میں حنابلہ کے مسلک کے مطابق نمازِ جنازہ کی ادائیگی کے بعد ایک طرف ہی سلام پھیرا جاتاہے۔ اس سلسلے میں ائمہ رابعہ کے مذاہب بیان کرنے کےبعد حنفیہ کے قول کی دلیل حدیث اور فقہاءِ کرام کی عبارات دونوں سے پیش فرمائیں، تاکہ یہاں لوگوں کی درست راہ نمائی ہوسکے۔ نیز یہ بھی بتادیجیے کہ اگر کوئی حنفی حرم میں نمازِ جنازہ ادا کرتے ہوئے صرف ایک طرف سلام پھیرے تو کیا حکم ہوگا؟

جواب

نماز جنازہ میں دو سلام ہیں یا ایک سلام، اس میں حنفیہ اور شافعیہ کے نزدیک دو سلام ہیں، اور مالکیہ کے نزدیک صرف ایک سلام ہے، جب کہ حنابلہ کے نزدیک ایک سلام نمازِ جنازہ کا رکن ہے، اگر دوسرا کرلے تب بھی کوئی حرج نہیں ہے۔ البتہ ائمہ ثلاثہ کے نزدیک  "سلام" نمازِ جنازہ کا رکن ہے جب کہ احناف کے نزدیک سلام نماز جنازہ کا رکن نہیں ہے، بلکہ واجب ہے۔ 

احناف کے مسلک کے نقلی اور عقلی دلائل دونوں ہیں:

(1) ابراہیم الھجری سے روایت ہے کہ عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی بیٹی کی نمازِ جنازہ پڑھی، اور چار تکبیریں کہیں ، پھر کچھ دیر ٹھہر گئے، یہاں تک کہ ہم نے گمان کیا کہ آپ پانچویں تکبیر کہیں گے،لیکن انہوں نے دائیں جانب سلام کیا اور پھر بائیں جانب سلام کیا، اور کہا کہ اسی طرح  رسول اللہ ﷺ نے جنازہ کی نماز پڑھائی ہے۔

السنن الكبرى للبيهقي (4/ 71):
"عن إبراهيم الهجري، قال: أمّنا عبد الله بن أبي أوفى على جنازة ابنته فكبر أربعاً، فمكث ساعةً حتى ظننا أنه سيكبر خمساً، ثم سلم عن يمينه وعن شماله، فلما انصرف، قلنا له: ما هذا؟ قال: " إني لا أزيدكم على ما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصنع، "  أو " هكذا صنع رسول الله صلى الله عليه وسلم "، ثم ركب دابته، وقال للغلام: " أين أنا؟ "قال: أمام الجنازة، قال: " ألم أنهك "، وكان قد كف يعني بصره".

(2) حضرت عبد اللہ ابن مسعود  رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ تین چیزیں ایسی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کیا کرتے تھے، لیکن لوگوں نے اسے کرنا چھوڑدیا ہے، ان میں سے ایک نماز کے سلام کی طرح  جنازہ کی نماز میں سلام کرنا ہے ۔ 

السنن الكبرى للبيهقي (4/ 71):
" عن حماد، عن إبراهيم، عن علقمة، والأسود، عن عبد الله، قال: " ثلاث خلال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يفعلهن، تركهن الناس، إحداهن: التسليم على الجنازة مثل التسليم في الصلاة ".

(3) حریث  رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ حضرت عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنازہ کی نماز پڑھائی اور دائیں اور بائیں جانب سلام کیا۔

مصنف ابن أبي شيبة (2/ 500):
"قال: ثنا عبد الله بن نمير، عن حريث، قال: رأيت عامراً «صلى على جنازة، فسلم عن يمينه، وعن شماله»".

(4) ابراہیم نخعی رحمہ اللہ جنازہ میں دائیں اور بائیں دو نوں طرف سلام کرتے تھے۔

مصنف ابن أبي شيبة (2/ 500):
"عن أبي الهيثم، عن إبراهيم، أنه كان «يسلم على الجنازة عن يمينه، وعن يساره»".

(5) حضرت عطاء رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ نمازِ جنازہ میں اسی طرح سلام کیا جائے گا جیساکہ نماز میں سلام کیا جاتا ہے۔

مصنف عبد الرزاق الصنعاني (3/ 494):
" عن عطاء قال: «يسلم الإمام على الجنازة كما يسلم في الصلاة، ويسلم من خلفه»".

 نیز نمازِ جنازہ بھی ایک نماز ہے؛ چنانچہ حدیث میں ہمیشہ اس کے لیے "صلاۃ" کا لفظ استعمال ہوا ہے اور اس نماز کے لیے بھی طہارت وغیرہ کی وہی شرطیں ہیں جودوسری نمازوں کے لیے ہیں، اس کی بھی ابتدا تکبیرِ تحریمہ سے ہوتی ہے اور انتہا سلام پر؛ اس لیے جیسے دوسری نمازوں میں دودفعہ سلام کیا جاتا ہے، اس نماز میں دائیں اور بائیں دونوں طرف سلام ہونا چاہیے؛  اس لیے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ دوسری نمازوں کوسامنے رکھتے ہوئے نمازِجنازہ میں بھی دوسلام کے قائل ہیں۔
بعض  فقہاءِ کرام  رحمہم اللہ ایک ہی سلام کے قائل ہیں؛ یہی رائے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی ہے،البتہ ان کے نزدیک دوسرا سلام بھی کرلینے میں حرج نہیں ہے،  سعودی عرب میں چوں کہ زیادہ ترلوگ حنبلی المسلک ہیں، اس لیے وہ ایک سلام پراکتفا کرتے ہیں۔
 اس لیے جب آپ سعودی عرب میں رہیں تو جب امام کے پیچھے نمازِ جنازہ پڑھیں تو آپ دونوں طرف سلام پھیرلیں۔
الفقه على المذاهب الأربعة (1/ 470):
"الحنفية قالوا: صفتها أن يقوم المصلي بحذاء صدر الميت، ثم ينوي أداء فريضة صلاة الجنازة عبادة لله تعالى، ثم يكبر للإحرام مع رفع يديه حين التكبير، ثم يقرأ الثناء، ثم يكبر تكبيرة أخرى بدون أن يرفع يديه، ثم يصلي على النبي صلى الله عليه وسلم، ثم يكبر ثالثة بدون رفع يديه أيضاً، ثم يدعو للميت ولجميع المسلمين، والأحسن أن يكون بالدعاء السابق، ثم يكبر رابعة بدون رفع يديه أيضاً، ثم يسلم تسليمتين: إحداهما عن يمينه، وينوي بها السلام على من على يمينه، ثانيتهما: على يساره؛ وينوي بها السلام على من على يساره؛ ولا ينوي السلام على الميت في التسليمتين، ويسر في الكل إلا في التكبير.
المالكية قالوا: صفتها أن يقوم المصلي عند وسط الميت إن كان رجلاً، وعند منكبيه إن كان امرأة، ثم ينوي الصلاة على من حضر من أموات المسلمين، ثم يكبر تكبيرة الإحرام مع رفع يديه عندها، كما في الصلاة، ثم يدعو، كما تقدم. ثم يكبر تكبيرة ثانية بدون رفع يديه، ثم يدعو أيضاً، ثم يكبر ثالثة بدون رفع يديه، ثم يدعو، ثم يكبر رابعة بدون رفع، ثم يدعو، ثم يسلم تسليمة واحدة على يمينه يقصد بها الخروج من الصلاة، كما تقدم في الصلاة، ولا يسلم غيرها، ولو كان مأموماً؛ ويندب الإسرار بكل أقوالها إلا الإمام فيجهر بالتسليم والتكبير ليسمع المأمومون، كما تقدم، ويلاحظ في كل دعاء أن يكون مبدوءاً بحمد الله تعالى، وصلاة على نبيه عليه السلام.
الشافعية قالوا: كيفيتها أن يقف الإمام أو المنفرد عند رأسه إن كان ذكراً، وعند عجزه إن كان أنثى أو خنثى، ثم ينوي بقلبه قائلاً بلسانه: نويت أن أصلي أربع تكبيرات على من حضر من أموات المسلمين فرض كفاية لله تعالى، ثم يكبر تكبيرة الإحرام، وإن كان مقتدياً ينوي الاقتداء، ثم يقول: أعوذ بالله من الشيطان الرجيم، بدون دعاء الافتتاح، ثم يقرأ الفاتحة؛ ولا يقرأ سورة بعدها؛ ثم يكبر التكبيرة الثانية؛ ثم يقول: اللهم صلي ع لى سيدنا محمد وعلى آل سيدنا محمد؛ كما صليت على سيدنا إبراهيم وعلى آل سيدنا إبراهيم وبارك على سيدنا محمد وعلى آل سيدنا محمد، كما رابكت على سيدنا إبراهيم وعلى آل سيدنا إبراهيم؛ في العالمين؛ إنك حميد مجيد؛ ثم يكبر التكبيرة الثالثة ويدعو بعدها للميت بأي دعاء آخروي، والأفضل أن يكون بالدعاء المتقدم، ثم يكبر التكبيرة الرابعة، ويقول بعدها: اللهم لا تحرمنا أجره، ولا تفتنا بعده، ثم يقرأ قوله تعالى: {الذين يحملون العرش، ومن حوله، يسبحون بحمد ربهم} الآية، ثم يسلم التسليمة الأولى ينوي بها من على يمينه، ثم يسلم الثانية ناوياً بها من على يساره، ويرفع يديه عند كل تكبيرة، ويضعهما تحت صدره، كما في الصلاة.
الحنابلة قالوا: صفتها أن يقف المصلي عند صدر الذكر، ووسط الأنثى، ثم ينوي الصلاة على من حضر من أموات المسلمين أو على هذا الميت، ونحو ذلك. ثم يكبر للإحرام مع رفع يديه، كما في الصلاة ثم يتعوذ، ثم يبسمل، ثم يقرأ الفاتحة، ولا يزيد عليها، ثم يكبر تكبيرة ثانية رافعاً يديه، ثم يصلي على النبي صلى الله عليه وسلم، كما في التشهد الأخير، ثم يكبر تكبيرة ثالثة مع رفع يديه، ثم يدعو للميت، كما تقدم، ثم يكبر رابعة مع رفع يديه أيضاً، ولا يقول بعدها شيئاً، ويصبر قليلاً ساكتاً، ثم يسلم تسليمة واحدة، ولا بأس بتسليمة ثانية".
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 213):
"(ويسلم) بلا دعاء (بعد الرابعة) تسليمتين ناويا الميت مع القوم".

فقه السنة (1/ 526):
" السلام: وهو متفق على فرضيته بين الفقهاء ما عدا أبا حنيفة القائل بأن التسليمتين يمينا وشمالا واجبتان وليستا ركنين، استدلوا على الفرضية بأن صلاة الجنازة صلاة، وتحليل الصلاة التسليم.
وقال ابن مسعود: التسليم على الجنازة مثل التسليم في الصلاة.
وأقله: السلام عليكم، أو سلام عليكم.
وذهب أحمد إلى أن التسليمة الواحدة هي السنة، يسلمها عن يمينه، ولا بأس إن سلم تلقاء وجهه، استدلالا بفعل رسول الله صلى الله عليه وسلم وبفعل الاصحاب الذين كانون يسلمون تسليمة واحدة، ولم يعرف لهم مخالف في عصرهم.
واستحب الشافعي تسليمتين، يبدأ بالاولى ملتفتا إلى يمينه ويختم بالاخرى ملتفتا إلى يساره، قال ابن حزم: والتسليمة الثانية ذكر وفعل خير
. فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200595

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں