بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نقد سودے کے مقابلے میں ادھار سودے میں زیادہ قیمت رکھنا


سوال

1- کیا میزان بینک کا تکافل پروگرام شرعاً جائز ہے؟ میں پینشن پروگرام لینا چاہتا ہوں ۔

2- میں ایک ادویات کی کمپنی کا ڈسٹریبیوٹر ہوں ، مجھے کمپنی ٹریڈ پرائس پر بیس فیصد پر ادویات پر منافع دیتی ہے۔اسے اگر کوئی بندہ نقد پیسے دے تو سترہ یا اٹھارہ فیصد پر اسی بیس فیصد میں سے طے کرکے دیتے ہیں اور اگر ادھار پر کوئی دوائی لے تو بارہ فیصد دیتے ہیں ۔کیا یہ شرعاً ٹھیک ہے؟

جواب

  1. میزان بینک کا تکافل پروگرام شرعاً جائز  نہیں۔
  2.  مذکورہ  صورت میں آپ کسی کو زیادہ قیمت پر دوائی بیچتے ہیں اور کسی کو کم قیمت پر، ایسا کرنا جائز ہے، بشرطیکہ سودا کرتے ہوئے ایک قیمت کا تعین کرلیا جائے اور ادھار والے کی قیمت تاخیر سے ادائیگی کی صورت مٰیں مزید نہ بڑھائی جائے۔
  • "وإذا عقد العقد على أنه إلى أجل كذا بكذا وبالنقد بكذا، أو قال: إلى شهر بكذا أو إلى شهرين بكذا فهو فاسد؛ لأنه لم يعاطه على ثمن معلوم؛ ولنهي النبي صلى الله عليه وسلم عن شرطين في بيع، وهذا هو تفسير الشرطين في بيع، ومطلق النهي يوجب الفساد في العقود الشرعية، وهذا إذا افترقا على هذا، فإن كان يتراضيان بينهما ولم يتفرقا حتى قاطعه على ثمن معلوم، وأتما العقد عليه فهو جائز؛ لأنهما ما افترقا إلا بعد تمام شرط صحة العقد". (الكتاب: المبسوط، المؤلف: محمد بن أحمد بن أبي سهل شمس الأئمة السرخسي (المتوفى: 483هـ)، الناشر: دار المعرفة – بيروت، كتاب البيوع، باب البيوع الفاسدة، ۱۳/۷) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010201163

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں