بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نئی مسجد کو مسجدِ ضرار کہنا


سوال

’’مسجدِ ضرار‘‘  کس کو کہتے ہیں؟  ایک بستی میں دو مساجد ہیں. ایک پندرہ بیس سال یا اس سے زیادہ پرانی ہے اور ایک حال ہی میں تعمیر ہوئی ہے. تو نمازی کو نماز پڑھنے کا کس مسجد میں زیادہ ثواب ملے گا؟

جواب

قرآنِ مجید میں جس عمارت کو ’’مسجدِ ضرار‘‘ قرار دیا گیا ہے، یہ وہ جگہ تھی جس کی نسبت قطعی دلیل سے ثابت ہے کہ وہاں مسجد ہی بنانے کی نیت نہ تھی،  محض صورت مسجد کی تھی، حقیقت میں وہاں رسول اللہ ﷺ اور اسلام کو نقصان پہنچانے کی سازشیں ہوتی تھیں، چوں کہ وہ اِ ضرارِ اسلام کی  نیت سے بنائی گئی تھی اس لیے اللہ جل شانہ نے اسے ’’مسجدِ ضرار‘‘ قرار دیا۔

{وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَکُفْرًا وَتَفْرِیْقًا بَیْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَاِرْصَادًا لِمَنْ حَارَبَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَه مِنْ قَبْلُ وَلَیَحْلِفُنَّ اِنْ اَرَدْنَا اِلَّا الْحُسْنَی وَاللّٰهُ یَشْهَدُ اِنَّهُمْ لَکَاذِبُوْن} [التوبة: ۱۰۷]
أخرج ابن أبي حاتم عن قتادة في قوله:{وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مَسْجِدًا ضِرَارًا} قال: إن النبي صلی اﷲ علیه وسلم بنی مسجداً بقباء، فعارضه المنافقون بآخر، ثم بعثوا إلیه لیصلي فیه، فاطلع اﷲ نبیه صلی اﷲ علیه وسلم ذلك". (الدر المنثور، سورة التوبة آیت: ۱۰۷، دارالکتب العلمیة بیروت ۳/۴۹۵)

لہذا بعد میں بننے والی مسجد کو (خواہ قریب ہی کیوں نہ بنی ہو) مسجدِ ضرار کہنا سنگین غلطی ہے،  نیز جب دوسری مسجد بن چکی ہے تو اگر اس میں بھی جمعہ ہوتا ہو تو دونوں جگہ ثواب برابر ہوگا۔ البتہ اگر بستی چھوٹی ہو تو ایک ہی مسجد میں جمعہ کرنا کافی ہے دونوں جگہ جمعہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ اور اگر کوئی گاؤں ہو تو اس میں جمعہ پڑھنا ہی درست نہیں۔

امداد الفتاوی 170-6:

"جس مسجدِ ضرار کا ذکرقرآ ن مجید میں ہے وہ وہ ہے جس کی نسبت قطعی دلیل سے ثابت ہے کہ وہاں مسجد ہی بنانے کی نیت نہ تھی، محض صورتِ مسجد ا ضرارِ اسلام کی نیت سے بنائی تھی، (۱) سو جس مسجد کا بانی دعویٰ نیت بناءِ مسجد کا کرے اور کوئی قطعی دلیل اس کی مکذب نہ ہو اس کو مسجدِ ضرار کیسے کہا جا سکتا ہے، ورنہ لازم آتاہے کہ ایسی مسجد کے انہدام اور اُس میں القاءِ کناسہ کو جائز کہا جائے ’’لأن الشيءَ إذا ثبت ثبت بلوازمه‘‘اور اس کا کوئی قائل نہیں، پس ثابت ہوا کہ ایسی مساجد مسجدِ ضرار میں تو داخل نہیں ؛ البتہ خود یہ قاعدہ مقر رہے کہ اگر طاعت میں غرض معصیت ہو جیسے مسجد بنانے میں غرض تعصب اور تفریق مقصود ہو تواُس فعل میں عاصی ہو گا، (۲) لیکن مسجد مسجد ہی ہو گی مع اپنے جمیع اَحکامِ لازمہ کے، باقی اس نیت کا حال اللہ ہی کو معلوم ہے دوسروں کو اس پر حکم جازم لگا نا جائز نہیں ۔ (۱۰ / ذی قعدہ ۸ ۳ ۱۳؁ھ (تتمۂ خامسہ ، ص ۱۶۵) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200170

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں