بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

دو بیوائیں، پانچ بیٹے اور پانچ بیٹیاں


سوال

ایک آدمی مر گیا اس کے دو بیویاں ہیں،  پہلی بیوی کی  2 بیٹیاں 1بیٹا ہے،  دوسری بیوی کی  3 بیٹیاں 4 بیٹے ہیں،  ان کی  تمام جائیداد 7مرلے ہے،  اور 1400000 (چودہ لاکھ ) نقد ہے۔  شرعی تقسیم کیا ہو گی؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں مرحوم کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ کار یہ ہے کہ سب سے پہلے مرحوم کی کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ میں سے مرحوم کے   حقوقِ  متقدمہ یعنی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالنے اور اگر مرحوم کے ذمہ کوئی قرضہ ہو (مثلاً بیوی کا مہر وغیرہ) تو  کل ترکے میں سے اس کی ادائیگی کے بعد، اور اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو  ایک تہائی مال میں سے وصیت کو نافذ کرنے کے بعد باقی کل جائیداد منقولہ و غیر منقولہ کو مرحوم کے تمام ورثاء (دو بیواؤں، پانچ بیٹوں اور پانچ بیٹیوں ) کے درمیان اس طرح تقسیم کیا جائے گا کہ  کل جائیداد کو ۲۴۰ حصوں میں تقسیم کر کے اس میں سے ۱۵، ۱۵ حصے مرحوم کی ہربیوہ کو، ۲۸، ۲۸ حصے مرحوم کے ہر بیٹے کو اور ۱۴، ۱۴ حصے مرحوم کی ہر بیٹی کو ملیں گے۔

فیصد کے اعتبار سے 100 فیصد میں سے 6.25% مرحوم کی ہر ایک بیوی کو، 11.666% مرحوم کے ہر بیٹے کو اور 5.833% مرحوم کی ہر بیٹی کو ملیں گے، لہٰذا سات مرلہ جائیداد کو تو مذکورہ فیصد کے اعتبار سے تقسیم کرلیا جائے۔

چودہ لاکھ (۱۴۰۰،۰۰۰ ) روپے میں سے  ستاسی ہزار پانچ سو (۸۷۵۰۰ ) روپے مرحوم کی ہر ایک بیوہ کو،  ایک لاکھ تریسٹھ ہزار تین سو تینتیس (۱۶۳،۳۳۳ ) روپے مرحوم کے ہر بیٹے کو اور  اکیاسی ہزار چھ سو چھیاسٹھ (۸۱،۶۶۶ ) روپے مرحوم کی ہر بیٹی کو ملیں گے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200510

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں