بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کے قرضوں کی ادائیگی زکات سے


سوال

بیٹی اپنی زکات والد کو نہیں دے سکتی، لیکن اگر والد کا انتقال ہو جائے اور ان پر قرضہ بہت ہو تو کیا بیٹی اپنی زکات والد کے انتقال کے بعد ان کے قرضے میں دے سکتی ہے؟

جواب

والد کے انتقال کے بعد ان کا قرضہ ان کی میراث میں سے  ادا کیا جائے گا۔ اور اس کی اتنی  ادائیگی ان کے ورثاء کے ذمہ ہوگی جتنا کہ ان کو ان کے والد سے ترکہ ملا ہے،اس سے زائد ان کے ذمہ لازم نہیں، تاہم قرضے کی مقدار ترکہ سے زائد ہو تو ورثہ کو میت پر احسان کرتے ہوئے اپنی طرف سے وہ قرض ادا کردینا چاہیے۔ لیکن باپ کے قرضے میں بیٹی کے لیے اپنی زکات دینے کی اجازت نہیں ہے۔ اولاً بیٹی کا باپ کو زکات دینا ہی جائز نہیں ہے، ثانیاً یہاں کسی زندہ مستحقِ زکات کو مالک بنانا بھی نہیں پایا جارہا۔

الدر المختار شرح تنوير الأبصار وجامع البحار (ص: 761):
" (يبدأ من تركة الميت الخالية عن تعلق الغير بعينها كالرهن والعبد والجاني) والمأذون المديون والمبيع المحبوس بالثمن والدار المستأجرة، وإنما قدمت على التكفين لتعلقها بالمال قبل صيرورته تركة (بتجهيزه) يعم التكفين (من غير تقتير ولا تبذير) ككفن السنة أو قدر ما كان يلبسه في حياته، ولو هلك كفنه:
فلو قبل تفسخه كفن مرة بعد أخرى وكله من كل ماله (ثم) تقدم (ديونه التي لها مطالب من جهة العباد) ويقدم دين الصحة على دين المرض إن جهل سببه، وإلا فسيان كما بسطه السيد".
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144007200108

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں