بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

میت کو عام قبرستان سے الگ دفن کرنا


سوال

بغیر مجبوری کے عام قبرستان میں دفنانے کے بجائے مدفن خاص میں دفنانے کا کیا حکم ہے؟ جیسے اپنی جامعہ کے احاطہ میں علامہ محمد یوسف بنوری اور دیگر اکابر کو دفنایا گیا ہے یا جیسے مسجد خاتم النبیین کے احاطہ میں اساتذہ کرام مفتی شامزئی شہید اور مولانا لدھیانوی شہید کو دفنایا گیا ہے۔ رحمھم اللہ رحمة واسعة. برائے مہربانی فقہ حنفی کی کسی کتاب سے باحوالہ جواب عنایت فرمائیں۔

جواب

   مسلمان میت کو مسلمانوں کے عام قبرستان میں ہی دفن کرنا سنت ہے ، بغیر کسی مجبوری کے کسی خاص جگہ میں تدفین مکروہ ہے ۔

  • فتاویٰ شامی میں ہے :

ولا یدفن صغیر ولا کبیر في البیت الّذي مات فیہ فإن ذلک خاص بالأنبیاء بل ینقل إلی مقابر المسلمین اھـ ۔ ومقتضاہ انّہ لایدفن في مدفن خاص کما یفعلہ من یبنی مدرسۃ ونحوھا ویبنی لہ بقربھا مدفنا تامل۔ ( رد المحتار علی الدر المختار ، کتاب الجنائز ، (۱؍۲۳۵) ط: سعید کراچی )

  • البحر الرائق میں ہے :

وإن أوصٰی أن یدفن في دارہ فھو باطل إلاَّ أن یوصی أن تجعل دارہ مقبرۃ للمسلمین وفي الخلاصۃ ولو أوصٰی بأن یدفن في بیتہ لایصحّ ویدفن في مقابر المسلمین ۔ ( البحر الرائق ، باب الوصیۃ بالخدمۃ والسکنٰی والثمرۃ ، (۸؍۸۱۷ ) ط: دار المعرفۃ ، بیروت )

  • درر الحکام میں ہے :

ویکرہ الدفن فی الأماکن التی تُسمٰی فساقی ولا یدفن صغیر ولا کبیر فی البیت الّذی مات فیہ ، فان ذلک خاص للأنبیاء ، بل ینقل إلی مقابر المسلمین کذا فی الفتح ۔ (درر الحکام شرح غرر الأحکام ، (باب الجنائز ، کیفیۃ السیر مع الجنازۃ ، (۱؍۱۶۷ ) ط : … )

  • فتح القدیر میں ہے :

ولایدفن صغیر ولاکبیر في البیت الّذي کان فیہ فإن ذلک خاص بالأنبیاء بل ینقل إلی مقابر المسلمین ۔ ( فتح القدیر ، فصل في الدفن ، ( ۲؍۱۴۱) ط: دار الفکر بیروت )

        باقی جن اکابر کا سائل نے نام لیا جن کی تدفین عام قبرستان میں نہیں ہوسکی توکچھ معروضی حالات تھے جن کی وجہ سے ان حضرات کی تدفین عام قبرستان سے الگ ہوگئی، لیکن یہ عام ضابطہ اور قاعدہ نہیں کہ اس کو حجت بنایا جاسکے۔ اصل حکم وہی ہے جو اوپر بیان ہوا۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143802200042

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں