بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

میاں بیوی میں طلاق کے بعد بیٹیوں کی پرورش کا حق اور ان کے نان ونفقہ کی ذمہ داری


سوال

طلاق کے بعد اگر بیٹیاں ماں کے ساتھ رہنا چاہیں تو کیا پھر بھی شوہر کو نان و نفقہ کا خرچ دینا پڑے گا؟

جواب

میاں بیوی میں علیحدگی کے بعد لڑکیوں کی پرورش کا حق  نو سال تک اس کی والدہ کو حاصل ہے، نو سال کے بعد اس کی پرورش کا حق اس کے والد کو حاصل ہوگا، اور والدہ کے نہ دینے  پر  بچوں کا والد   قانونی چارہ جوئی کا بھی حق رکھتا ہے، تاہم بیٹیاں جب تک والدہ کی پرورش میں ہوں  تب بھی ان کی شادی تک  ان کے والد ہی کے ذمہ ان  کا نان ونفقہ  لازم ہوگا، بشرط یہ کہ بچیوں کا اپنا کوئی مال نہ ہو۔

اگر بیٹیاں بالغ ہیں تو پھر اس میں یہ تفصیل ہے کہ :  اگر  لڑکی غیر شادی شدہ ہے ، لیکن عمر رسیدہ ہے  یا وہ شادی شدہ (طلاق یافتہ) ہے اور فتنہ کے خوف سے بھی محفوظ ہے تو اس کو اختیار  ہے وہ جہاں چاہے رہے،  اور اگر لڑکی نوجوان  اور غیر شادی شدہ ہے  یا وہ شادی شدہ ہے  (بشرطیکہ اس کا شوہر نہ ہو)، لیکن فتنہ کا خوف ہے تو والد اس کو اپنی حفاظت اور تربیت میں رکھنے کا  حق  دار ہوگا ۔

فتاوی شامی میں ہے:

 "(والحاضنة) أما، أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لأنه الغالب. ولو اختلفا في سنه، فإن أكل وشرب ولبس واستنجى وحده دفع إليه ولو جبرا وإلا لا (والأم والجدة) لأم، أو لأب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية. ولو اختلفا في حيضها فالقول للأم، بحر بحثاً.

وأقول: ينبغي أن يحكم سنها ويعمل بالغالب. وعند مالك، حتى يحتلم الغلام، وتتزوج الصغيرة ويدخل بها الزوج عيني (وغيرهما أحق بها حتى تشتهى) وقدر بتسع وبه يفتى".(3/566، باب الحضانۃ، ط:سعید)

وفیہ ایضاً :

"حاصل ما ذكره في الولد إذا بلغ أنه إما أن يكون بكرا مسنة أو ثيبا مأمونة، أو غلاما كذلك فله الخيار وإما أن يكون بكرا شابة، أو يكون ثيبا، أو غلاما غير مأمونين فلا خيار لهم بل يضمهم الأب إليه". (3/569،  باب الحضانۃ، ط: سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ونفقة الإناث واجبة مطلقاً على الآباء ما لم يتزوجن إذا لم يكن لهن مال، كذا في الخلاصة". (1/563، الفصل الرابع في نفقة الأولاد، ط: رشیدیہ) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200911

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں