بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مکینک کو گاہک لانے پر کمیشن دینا


سوال

 ہماری دکان ہے گاڑیوں کے سامان کی،  ہمارے پاس مکینک گاہک لاتے ہیں تو ہم ان کو کچھ پیسے کمیشن کے طور پر دیتے ہیں،  کیا یہ جائز ہے؟  اور کبھی مکینک گاہک کو لاکر کہتا ہے، اتنے میرے رکھو تو ہم گاہک کو پیسے زیادہ بتا کر اس مکینک کے بھی لیتے ہیں اور اس ساری صورتِ حال کا گاہک کو نہیں پتا ہوتا۔  خلاصہ کلام یہ ہے کہ اگر ہم مکینک کوگاہک لانے کے پیسے اپنی طرف سے دیں تو کیا حکم ہے؟  اور اگر ہم گاہگ سے زیادہ پیسے مکینک کے مطالبہ پر لیں کر اس مکینک کو دیں تو کیا حکم ہے؟ دونوں صورتوں کا تشفی بخش جواب عنایت فرمائیں!

جواب

مکینک جو گاہک آ پ کے پاس لاتے ہیں اور اس میں اپنے کمیشن کا مطالبہ کرتے ہیں ان کا مطالبہ درست ہے، بشرطیکہ آپ ان سے کمیشن پہلے طے کرلیں کہ ہر گاہک پر اتنا کمیشن ہوگا یا اتنے کی خریداری پر اتنا کمیشن ہوگا، اور  پھر جو رقم آپ مناسب سمجھیں اس پر گاہک کو مال دے دیں۔ اس معاملہ کا گاہک کو معلوم ہونا ضروری نہیں۔ اس لیے کہ مکینک بطورِ بروکر  آپ کے لیے کسٹمر لایا  ہے،  اس کی اجرت وہ آپ سے لے رہا ہے، جس رقم پر آپ اپنا مال بیچیں اس سے مکینک کا دخل نہیں۔

اگر مکینک یہ کمیشن گاہک سے لےگا تو اس کے ذمہ لازم ہے کہ گاہک کو بتائے کہ یہ چیز اتنے کی ہے اور اس پر میرا اتنا کمیشن ہے۔

المحيط البرهاني في الفقه النعماني (7/ 11):
"ولايضم أجرة الطبيب والرائض والبيطار، وجعل الآبق وأجرة السمسار تضم إن كانت مشروطةً في العقد بالإجماع، وإن لم تكن مشروطةً بل كانت موسومةً، أكثر المشايخ على أنها لاتضم، ومنهم من قال: لاتضم أجرة الدلال بالإجماع، بخلاف أجرة السمسار إذا كانت مشروطة في العقد".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 63):
"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجاً ينسج له ثياباً في كل سنة". 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144007200107

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں