بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مونچھوں میں حلق امام طحاوی رحمہ اللہ کا قول کی روشنی میں


سوال

مونچھوں میں حلق افضل ہے یا قصر?  امام طحاوی حلق افضل قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیں یہ احناف کا مذہب ہے۔ لیکن بعض علماء حلق کو "مثلہ" قرار دیتے ہیں اور مکروہ کہتے ہیں، حال آں کہ عرف میں قصررائج ہے؟

حدیثِ طحاوی: "وبه قال: حدثنامحمد بن نعمان ... جابر بن عبد الله وأبا هریرة ... یحفون شواربهم". (رواه الطحاوي ج/٢ص٣١٨ مکتبه رحمانیه) 

امام طحاوی کی وجہ نظر دیکھیے۔مفصل جواب باحوالہ دیجیے!

جواب

 نبی کریم ﷺ کا معمول مونچھیں خوب کترنے کا تھا، اس لیے مونچھیں اچھی طرح کتروانا سنت ہے،یعنی قینچی وغیرہ سے  کاٹ کر اس حد تک چھوٹی کردی جائیں کہ مونڈنے کے قریب معلوم ہوں، بہتر یہ ہے کہ مونچھیں قینچی وغیرہ سے کاٹی جائیں اور اتنی چھوٹی کردی جائیں کہ مونڈنے کے قریب معلوم ہوں، احادیثِ طیبہ میں مونچھوں کے بارے میں ”جز“، ”احفاء“اور”انہاک“ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، ان سے قینچی وغیرہ سے لینا ہی مفہوم ہوتا ہے؛ کیوں کہ ان کے معنی مطلق کاٹنے یا مبالغہ کے ساتھ کاٹنے یا لینے کے ہیں،  باقی استرے اور بلیڈ سے صاف کرنا بھی جائز ہے، لیکن بہتر یہ ہے کہ قینچی کااستعمال کیاجائے۔(فتاوی شامی  550/2      ، 407/6 ،         642/1  ط:سعید۔) 

"جزّ الشعر․․․ قطعهن وحفا شاربه: بالغ في أخذه کأحفاهن. والنّهک: المبالغة في کل شيء". (القاموس المحیط)

باقی استرے اور بلیڈ سے صاف کرنا بھی جائز ہے؛ لیکن خلافِ اولیٰ ہے؛ اس لیے کہ استرا وغیرہ سے صاف کرنے سے متعلق بدعت اور سنت دونوں طرح کے اقوال ہیں اورجو فعل سنت وبدعت کے درمیان دائر ہو اس کا ترک ہی اولیٰ ہوتا ہے۔

"وفیه (مجتبی): حلق الشارب بدعة. وقیل: سنّة". (درمختار: ۹/۵۸۳)

"․․․ إذا تردد الحکم بین سنّة وبدعة کان ترک السنة راجحاً علی فعل البدعة". (شامي ۱/۴۰۹ )

یہی مفتی بہ قول ہے، امام طحاوی رحمہ اللہ نے اپنی نظر میں حلق کی افضلیت کے لیے حج  کے حلق پر قیاس کیا ہے، ان کے ہاں حلق ہی افضل ہے۔

لیکن ’’نخب الافکار‘‘ میں اس کا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ جس طرح قصر میں زیادتی کرکے وہاں حلق افضل ہے، اسی طرح یہاں مونچھوں میں زیادتی کرکے "احفاء" افضل ہے، اس سے مراد حلق نہیں، بلکہ حلق جیسا ہے ، جیسا کہ مفتی بہ قول میں گزر چکا۔

نخب الأفكار في تنقيح مباني الأخبار في شرح معاني الآثار (13/ 175):
"قلت: حاصل الكلام أن الإحفاء هو أن يأخذ من شاربه حتى يصير مثل الحلق، وأما الحلق بعينه فلم يرد، وقد كرهه بعض العلماء، فعلم من ذلك أن القص هو أن يأخذ منه شيئًا، والإحفاء أن يستأصله، وإن كان ابن عمر - رضي الله عنهما - كان يحفي حتى يُرَى جلده على ما يجيء إن شاء الله تعالى.
فعل هذا كل إحفاء قص، وليس كل قص إحفاء، دليل ذلك ما قاله عياض: إن هؤلاء الذين ذهبوا إلى أن القص هو المستحب ذهبوا إلى أن الإحفاء والجز والقص بمعنى واحد، وأنه الأخذ منه حتى يبدو الإطار وهو طرف الشفة".

نخب الأفكار في تنقيح مباني الأخبار في شرح معاني الآثار (13/ 183):
"ص: وأما من طريق النظر: فقد رأينا الحلق قد أمر به في الإحرام، ورخص في التقصير، فكان الحلق أفضل من التقصير، وكان التقصير من شاء فعله ومن شاء زاد عليه، إلا أنه يكون بزيادته عليه أجرًا أعظم من القص، فالنظر على ذلك أن يكون كذلك حكم الشارب، قصه حسن، وإحفاؤه أحسن وأفضل، وهذا مذهب أبي حنيفة وأبي يوسف ومحمد -رحمهم الله-.
ش: أي: وأما معنى هذا الباب من طريق النظر والقياس. بيانه: أن الحاج أمر بالحلق ورخص له في التقصير وخير فيه إن شاء اقتصر عليه وإن شاء زاد عليه، غير أنه يكون بزيادته على ذلك أكثر أجرًا، فالقياس على ذلك أن يكون حكم الشارب كذلك؛ يكون مخيرًا في قصه فإذا زاد على ذلك حتى صار إحفاءً يكون أفضل من ذلك، فيكون القص حسنًا والإحفاء أحسن، فافهم".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 550):

"واختلف في المسنون في الشارب هل هو القص أو الحلق؟ والمذهب عند بعض المتأخرين من مشايخنا أنه القص. قال في البدائع: وهو الصحيح. وقال الطحاوي: القص حسن والحلق أحسن، وهو قول علمائنا الثلاثة، نهر. قال في الفتح: وتفسير القص أن ينقص حتى ينتقص عن الإطار، وهو بكسر الهمزة: ملتقى الجلدة واللحم من الشفة، وكلام صاحب الهداية على أن يحاذيه. اهـ".

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 193):

"وقوله: " أخذ من شاربه " إشارة إلى القص، وهو السنة في الشارب لا الحلق.

وذكر الطحاوي في شرح الآثار: أن السنة فيه الحلق، ونسب ذلك إلى أبي حنيفة، وأبي يوسف ومحمد - رحمهم الله -، والصحيح أن السنة فيه القص؛ لما ذكرنا أنه تبع اللحية، والسنة في اللحية القص لا الحلق، كذا في الشارب؛ ولأن الحلق يشينه ويصير بمعنى المثلة، ولهذا لم يكن سنة في اللحية، بل كان بدعة، فكذا في الشارب".  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200718

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں