بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

موزوں اور جرابوں پر مسح اور اس کی شرائط


سوال

 کون سے موزوں پہ مسح درست ہے؟ حدیث کی روشنی میں دلیل دیں، کیا جرابوں پہ بھی مسح ہو سکتا ہے؟

جواب

’’خفین‘‘ پر مسح  کرنا جائز ہے اور ’’خفین‘‘ ایسے موزے کو کہتے ہیں جو پورے چمڑے کے ہوں، اسی طرح  ”مجلد“ یعنی وہ موزے جن کے اوپر اور نچلے حصے میں چمڑا ہو ، اور ”منعل“ یعنی وہ موزے جن کے صرف نچلے حصے میں چمڑا ہو  ان تینوں پر مسح کرنا جائز ہے۔

 اسی طرح ایسی جرابیں جن میں تین شرطیں پائی جائیں تو  ان پر بھی مسح کرنا جائز ہے، وہ شرائط یہ ہیں:

(1) ایسے گاڑھے (موٹے) ہوں کہ ان میں پانی نہ چھنے یعنی اگر ان پر پانی ڈالا جائے تو پاؤں تک نہ پہنچے.

(2)  اتنے مضبوط ہوں کہ بغیر جوتوں کے بھی اس میں  تین میل پیدل چلنا ممکن ہو.

(3) وہ کسی  چیز سے باندھے بغیر اپنی موٹائی اور سختی کی وجہ سے  پنڈلی پر خود قائم رہ سکیں، اور یہ کھڑا رہنا کپڑے کی تنگی اور چستی کی وجہ سے نہ ہو ۔

  ان کے علاوہ  باقی اونی، سوتی یانائلون کی مروجہ جرابوں پر مسح کرنا ائمہ متبوعین میں سے کسی کے نزدیک بھی جائز نہیں ہے۔

واضح رہے کہ قرآن کریم میں جو وضو کا طریقہ بیان ہوا ہے ان میں اصل حکم  پاؤں دھونے کا ہے، لیکن چمڑے کے موزوں پر مسح  کرنے کی باجماعِ امت اجازت دی گئی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے موزوں پر مسح کرنا  اور آں حضرت ﷺ کا اس کی اجازت دینا ایسے تواتر سے ثابت ہے جس کا انکار ممکن نہیں ہے، اور چمڑے کے یہ موزے جنہیں ’’خفین‘‘  کہا جاتا ہے اس کے بارے میں تواتر موجود ہے، لہذا اس پر تو بلاشک وشبہ مسح جائز ہے، اور جو موزے اتنے ثخین(موٹے) ہوں کہ وہ اپنی خصوصیات اور اوصاف میں چمڑے کے ہم پایہ ہوگئے ہوں (جن کی شرائط ماقبل میں گزریں) ایسے موزوں پر فقہاء نے مسح کی اجازت دی ہے، اور فقہاء نے یہ شرائط  بھی تابعین کے فتوے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے عمل سے اخذ کی ہیں، چناچہ مصنف ابن ابی شیبہ میں روایات ہے کہ حضرت سعید ابن المسیب  اور حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ”جرابوں پر مسح جائز ہے بشر ط یہ کہ وہ موٹی ہوں“۔

"عن قتادة، عن سعيد بن المسيب، والحسن أنهما قالا: «يمسح على الجوربين إذا كانا صفيقين»".  (مصنف ابن أبي شيبة (1/ 171) برقم:1976)
اور ”صفیق“ اس کپڑے کو کہا جاتا ہے جو خوب مضبوط اور دبیز ہو. اور حضرت حسن بصری اور حضرت سعید ابن المسیب رحمہ اللہ دونوں جلیل القدر تابعین میں سے ہیں،انہوں نے صحابہ کرام کا عمل دیکھ کر ہی یہ فتوی دیا ہے۔

اور اسی موٹائی کی وضاحت کرتے ہوئے فقہاء نے جرابوں پر مسح کرنے کے لیے  مذکورہ شرائط ذکر کی ہیں، ایسے موزے چوں کہ چمڑے کے اوصاف کے حامل ہوتے ہیں، اس لیے ان کو بھی اکثر فقہاء نے ”مسح علی الخفین“ کی احادیث کی ”دلالۃ النص“ اور مذکورہ آثار صحابہ کی بنا پر ”خفین“ کے حکم میں داخل  کرلیا ہے، چناچہ علامہ ابن الہمام رحمہ اللہ فتح القدیر میں تحریر فرماتے ہیں:

فتح القدير للكمال ابن الهمام (1/ 157):
" لا شك أن المسح على الخف على خلاف القياس فلايصلح إلحاق غيره به إلا إذا كان بطريق الدلالة وهو أن يكون في معناه، ومعناه الساتر لمحل الفرض الذي هو بصدد متابعة المشي فيه في السفر وغيره للقطع بأن تعليق المسح بالخف ليس لصورته الخاصة بل لمعناه للزوم الحرج في النزع المتكرر في أوقات الصلاة خصوصا مع آداب السير". 

مزید تفصیل لے لیے ”فقہی مقالات“ (حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم) جلد 2 ص:9 تا 24 کا مطالعہ مفید رہے گا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144007200199

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں