بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

منکرینِ حدیث کا حکم


سوال

جو لوگ حدیث کو نہیں مانتے، صرف قرآن کی بات کرتے ہیں اور ہر سوال کا جواب قرآن مجید سے مانگتے ہیں، ان کا  کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ حدیث کا حجت اور قابلِ اعتماد ہونا نصوصِ قطعیہ سے ثابت ہے، حدیث کا انکار کرنا در حقیقت رسول کی ابدی اطاعت سے فرار اور آپ کی حیثیتِ حکم رانی کو چیلنج ہے، حدیث و سنت کا حجت ہونا ظاہر و عیاں ہے، امتِ محمدیہ کا غیر منقطع تعامل و توارث اس پر شاہد صدق ہے، اب یہاں حجیتِ حدیث کے چند دلائل کی نشان دہی کی جاتی ہے:

رَبَّنا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولاً مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آياتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (البقرة، 129)

ترجمہ: "اے ہمارے پروردگار! اور ان لوگوں میں خود ان ہی کے اندر سے ایک رسول مبعوث فرما جو انہیں تیری آیات پڑھ کر سنائے اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دےاور ان کا تزکیہ کرے بے شک تو ہی ہے بہت زبردست بڑی حکمت والا"۔ 

 كَما أَرْسَلْنا فِيكُمْ رَسُولاً مِنْكُمْ يَتْلُوا عَلَيْكُمْ آياتِنا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُمْ ما لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ (البقرة، 151)

ترجمہ: "جس طرح ہم نے تمہارے اندر تم ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو تم کو ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے اور تمہارا تزکیہ کرتا ہےاور تم کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہےاور تمہیں وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے"۔

لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آياتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلالٍ مُبِينٍ (آل عمران، 164)

ترجمہ: "یقیناً اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں پر احسان فرمایا کہ ان میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو اللہ کی آیات ان کو پڑھ کر سناتا ہے اور ان کا تزکیہ کرتا ہےاور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہےاور اس سے پہلے وہ صریح گم راہی میں مبتلا تھے"۔

هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولاً مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آياتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلالٍ مُبِينٍ (الجمعة، 2)

ترجمہ: "وہی ہے جس نے ان پڑھوں میں ایک رسول ان ہی میں سے مبعوث فرمایا کہ وہ ان کو اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو سنوارتا ہےاور ان کو کتاب اور حکمت سکھاتا ہےاور اس سے پہلے وہ صریح گم راہی میں مبتلا تھے"۔

ان آیاتِ جلیلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقصدِ بعثت کو متعین کیا گیا ہے جو حسبِ ذیل امور پر مشتمل ہے:

1۔ تلاوتِ آیات

2۔ کتاب و حکمت کی تعلیم

3۔ تزکیہ و تطہیرِ نفوس

اب ظاہر ہے کہ کتاب و حکمت کی تعلیم تلاوتِ آیات کے علاوہ کوئی اور ہی چیز ہو سکتی ہے ورنہ اس کا علیحدہ ذکر بے معنیٰ تھا، اسی طرح "تزکیہ" بھی آپ کا ایسا خصوصی وصف تھا جو یقیناً قرآن کے الفاظ پڑھ کر سنا دینے سے زائد ہے ورنہ تزکیہ کو ایک علیحدہ مقصد کے طور پر بیان کرنے سے کیا فائدہ، بس یہی دونوں چیزیں یعنی حکمت و تزکیہ کی علمی و عملی تفصیل "حدیث و سنت" کہلاتی ہے۔صحابہ و تابعین جن کی بصیرتِ قرآنی ہر زمانہ میں سند و حجت رہی ان سب کی یہی رائے ہے کہ اس سے مراد "سنت رسول اللہ" ہے، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ، حسنِ بصری، قتادہ اور دوسرے حضرات فرماتے ہیں کہ حکمت سے مراد سنت ہی ہے۔

امام محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "الرسالۃ" میں اطاعتِ رسول کی بحث کرتٍے ہوئے لکھا ہے:

الرسالة للشافعي (1/ 78):
" فذكر الله الكتاب، وهو القُرَآن، وذكر الحِكْمَة، فسمعتُ مَنْ أرْضى من أهل العلم بالقُرَآن يقول: الحكمة سنة رسول الله.
وهذا يشبه ما قال، والله أعلم" .

نیز ارشادِ باری تعالی ہے:

وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ (النحل، 44)

ترجمہ: "اور اےنبی! یہ ذکر (قرآن) ہم نے تمہاری طرف اس لیے  نازل کیا ہےتا کہ تم واضح کر دو لوگوں کے لیے اس کو جو ان کی طرف نازل کیا گیا ہے"۔

اس آیت سے بوضاحت یہ معلوم ہو رہا ہے کہ جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ یہ خدمت سپرد کی گئی تھی کہ قرآن میں اللہ تعالی نے جو احکام اور ہدایتیں دی ہیں آپ ان کی "تبیین" فرمائیں، تبیین کے معنیٰ ہیں کسی چیز کا کھول کر بیان کرنا جس کے لیے ہم اپنی زبان میں "تشریح" کا لفظ استعمال کیا کرتے ہیں اور یہ ہر شخص جانتا ہے کہ تشریح اور وضاحت اصل عبارت سے الگ ہوا کرتی ہے، بس قرآن مجید کی اسی تبیین و تشریح کا نام حدیث ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ احادیثِ مبارکہ کا ثبوت اور اس کا حجت ہونا  خود قرآنِ حکیم میں موجود ہے، اس کے باوجود اگر کوئی شخص احادیثِ مبارکہ کا مطلقاً انکار کرتا ہے اور اس کی حجیت کو نہیں مانتا تو ایسے شخص کے کفر میں شبہ نہیں. اور جو بلاتاویل  کسی خاص حدیث کا انکار کرے جسے جمہورِ اہلِ سنت نے قبول کیا ہو تو وہ گم راہ ہے. 

البتہ کسی دوسرے نص کی بنیاد پر یا اس کے نزدیک حدیث صحیح سند سے ثابت نہ ہونے کی بنا پر انکار کرتاہو، یا کوئی معتبر تاویل کرتاہو اور اس کا مقصد نفسانی خواہش نہ ہو (جیساکہ بعض ائمہ مجتہدین کاطرزِ عمل ہے) تو اس میں حرج نہیں. 

شاہ عبد العزیز دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے منکرین حدیث کا حکم تفصیل سے بیان فرمایا ہے:

اس مسئلہ میںچند احتمالات ہیں:

اول یہ کہ تمام حدیثوں کا انکار کرے یہ بعینہ کفر ہے۔

دوسرے یہ کہ حدیثِ متواتر کا انکار کرے اور اس میں کوئی تاویل نہ  کرے، یہ بھی کفر ہے۔

تیسرے یہ کہ  صحیح احادیث میں سے  ''آحاد '' کا انکار کرے اور یہ انکار خواہشِ نفسانی سے ہو، اس وجہ سے کہ وہ حدیث طبیعت کے موافق نہ ہو یا دنیوی مصلحت کے خلاف ہو یہ گناہِ کبیرہ ہے، ایسا  منکر بدعتی ہے، یعنی بدعتِ سیئہ کرتا ہے۔

چوتھے یہ کہ اس وجہ سے حدیث کا انکار کرے کہ اس کے خلاف کوئی دوسری حدیث قوی تر ہو یا یہ کہ ناقل کے قول پر اس کو اعتماد نہ ہو اس وجہ سے وہ شخص یہ سمجھتا ہو کہ فی الواقع یہ حدیث نہیں ہے اور اس خیال سے اس کو اس حدیث سے انکار ہو اور یہ انکار خواہشِ نفسانی سے نہ ہو   اور نہ کسی دنیوی غرض سے ہو اور اپنے کلام کی سر سبزی بھی منظور نہ ہو اور نہ کوئی دوسری غرض فاسدہ مقصود ہو، بلکہ اس وجہ سے اس کو انکار ہو کہ وہ حدیث اس کے گمان میں علمِ اصولِ حدیث کے قواعد کے خلاف ہو یا کسی آیتِ قرآنی کے خلاف ہو یا ایسی ہی کوئی اور مناسب وجہ انکار کی اس کے نزدیک ہو تو ایسے انکار میں کچھ حرج نہیں۔

(فتاوی عزیزی  از شاہ عبد العزیز دہلوی رحمۃ اللہ علیہ(1/441) تحت عنوان مسائلِ فقہ) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143908200580

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں