بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مملوکہ دکانوں کی چھت پر بنی مسجد کا حکم


سوال

جب ہمارے محلے کی جامع مسجد کی دوبارہ تعمیر و توسیع کی جارہی تھی ، تو ایک صاحب نے قبلہ کی طرف سے اپنی زیرِ زمین دکانوں کی چھت پر مسجد کو وسعت دی، اب مذکورہ دکانیں کسی اور شخص پر فروخت کی گئی ہیں۔ قبلہ کی طرف سے تقریباً دو صفوں تک کی جگہ مذکورہ دکانو ں کے اوپر ہے اور اس کے پیچھے صفیں پرانی مسجد کی زمین پر واقع ہیں ۔ عام حالات میں پچھلی صفوں کو چھوڑ کر انہی دو صفوں پر نماز باجماعت ادا ہوتی ہے ۔ پوچھنا یہ ہے کہ مذکورہ بالا اگلی دو صفیں مسجدِ شرعی کے حکم میں ہیں یا کہ نہیں؟ ایسی مسجد میں نماز باجماعت کا کیا حکم ہے؟ کیوں کہ  ہم نے سنا ہے کہ مسجد کی زمین پر اوپر نیچے کسی کا قبضہ نہیں ہونا چاہیے۔

جواب

واضح رہے کہ اگر وقف زمین پر مسجد  کی تعمیر  سے  پہلے سے  نیچےوالے حصے میں    دکانیں بنائی جائیں ،اور یہ دکانیں مسجد کے مصالح اور آمدنی کے لیے ہو ں، تو اس کی  گنجائش ہے، اور ایسی صورت میں اوپر والی جگہ شرعی مسجد کے حکم میں ہوگی،  لیکن مذکورہ دکانوں کا استعمال مسجد کے تقدس اور احترام کو ملحوظ رکھ کر کرناہوگا۔ اور اگر  نیچے اور اوپر مسجد کی  تعمیر مکمل  ہوجائے  تو  پھر نیچے نہ دکانیں بنائی جاسکتی ہیں  اور نہ ہی وضوخانہ بنایا جاسکتا ہے، تاہم بہتر یہی ہے کہ ابتدائی تعمیر کے وقت بھی دکانیں مسجد کے احاطہ یعنی  نماز پڑھنے کے لیے مختص کی گئی جگہ کے اردگرد بنائی جائیں، عین اس کے نیچے نہ بنائی جائیں۔

مذکورہ تمہید کے بعد سوال کا جواب یہ ہے کہ  مذکورہ  مسجد کی  جو توسیع زیر زمین دکانوں کی چھت پر ہوئی ہے اور وہ دکانیں  مسجد کے مصالح کے لیے وقف نہیں ہیں ، بلکہ شخصی ملکیت ہیں تو ایسی صورت میں اس کے اوپر والی جگہ شرعی مسجد نہیں بنے گی،  بلکہ یہ عرفی مسجد ہے، اس میں نماز باجماعت پڑھنا درست ہے، البتہ اس کا ثواب شرعی مسجد کا نہیں  ہوگا اور اس میں اعتکاف بھی درست نہیں ہوگا۔

البحر الرائق  میں ہے:

’’حاصله: أن شرط كونه مسجداً أن يكون سفله وعلوه مسجداً؛ لينقطع حق العبد عنه؛ لقوله تعالى: {وأن المساجد لله} [الجن: 18] بخلاف ما إذا كان السرداب أو العلو موقوفاً لمصالح المسجد، فإنه يجوز؛ إذ لا ملك فيه لأحد، بل هو من تتميم مصالح المسجد، فهو كسرداب مسجد بيت المقدس، هذا هو ظاهر المذهب، وهناك روايات ضعيفة مذكورة في الهداية، وبما ذكرناه علم أنه لو بنى بيتاً على سطح المسجد لسكنى الإمام فإنه لا يضر في كونه مسجداً؛ لأنه من المصالح.

فإن قلت: لو جعل مسجداً ثم أراد أن يبني فوقه بيتاً للإمام أو غيره هل له ذلك قلت: قال في التتارخانية إذا بنى مسجداً وبنى غرفة وهو في يده فله ذلك، وإن كان حين بناه خلى بينه وبين الناس ثم جاء بعد ذلك يبني لا يتركه. وفي جامع الفتوى: إذا قال: عنيت ذلك، فإنه لا يصدق. اهـ.

(5/ 271،  کتاب الوقف، فصل فی احکام المسجد، ط: دارالکتاب الاسلامی، بیروت)

فتاوی شامی میں ہے:

’’(وإذا جعل تحته سرداباً لمصالحه) أي المسجد (جاز) كمسجد القدس (ولو جعل لغيرها  أو) جعل (فوقه بيتاً وجعل باب المسجد إلى طريق وعزله عن ملكه لا) يكون مسجداً.

 (قوله: وإذا جعل تحته سرداباً) جمعه سراديب، بيت يتخذ تحت الأرض لغرض تبريد الماء وغيره، كذا في الفتح. وشرط في المصباح أن يكون ضيقاً، نهر (قوله: أو جعل فوقه بيتاً إلخ) ظاهره أنه لا فرق بين أن يكون البيت للمسجد أو لا، إلا أنه يؤخذ من التعليل أن محل عدم كونه مسجداً فيما إذا لم يكن وقفاً على مصالح المسجد، وبه صرح في الإسعاف فقال: وإذا كان السرداب أو العلو لمصالح المسجد أو كانا وقفاً عليه صار مسجداً. اهـ. شرنبلالية.

(4/ 357، کتاب الوقف، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143806200042

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں