میرے گھر کے پاس زید کا درخت ہے جس پر شہد کی مکھیوں کا چھتہ ہے ، میں نے اس شہد کی دوسرے لوگوں سے حفاظت کی ہے؛ تاکہ شہد کو کوئی نقصان نہ پہنچائے، اور شہد کو میں توڑ سکوں، اگرچہ درخت زید کی ملکیت ہے۔ اب زید کہتا ہے کہ شہد میرا ہے؛ کیوں کہ درخت میرا ہے۔ میں کہتا ہوں: میرا ہے؛ کیوں کہ میں نے لوگوں سے حفاظت کی ہے۔ سوال یہ ہے کہ شہد میرا ہے یا زید کا؟
جس درخت پر شہد کی مکھیوں نے چھتہ بنایا ہے؛ چوں کہ وہ زید کی ملکیت ہے ؛ اس لیے اس پر بنے شہد کی مکھیوں کے چھتے سے شہد حاصل کرنے کا حق زید کو ہی ہے، اس کی اجازت و رضامندی کے بغیر آپ کا اس سے شہد نکالنا جائز نہیں، نیز زید کے مملوکہ درخت میں اس کی رضامندی کے بغیر آپ کو کسی تصرف کا حق حاصل نہیں۔
الفتاوى الهندية - (45 / 156):
"وَفِي الْمُنْتَقَى دَاوُد بْن رَشِيدٍ عَنْ مُحَمَّدٍ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى -: نَحْلٌ اتَّخَذَتْ كُوَّارَاتٍ فِي أَرْضِ رَجُلٍ، فَخَرَجَ مِنْهَا عَسَلٌ كَثِيرٌ كَانَ ذَلِكَ لِصَاحِبِ الْأَرْضِ، وَلَا سَبِيلَ لِأَحَدٍ عَلَى أَخْذِهِ، قَالَ: وَلَا يُشْبِهُ هَذَا الصَّيْدَ وَبَيْضَهُ، وَأَشَارَ إلَى مَعْنَى الْفَرْقِ، فَقَالَ: إنَّهُ يَجِيءُ وَيَذْهَبُ، وَالْبَيْضُ يَصِيرُ طَائِرًا وَيَطِيرُ، وَإِنَّمَا يُشْبِهُ الطَّيْرُ فِي هَذَا النَّحْلَ نَفْسَهَا، وَلَوْ أَخَذَ النَّحْلَ أَحَدٌ كَانَتْ لَهُ، وَأَمَّا الْعَسَلُ فَلَمْ يَكُنْ صَيْدًا، وَلَا يَصِيرُ صَيْدًا قَطُّ. وَفِيهِ أَيْضًا عَنْ أَبِي يُوسُفَ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى -: إذَا وَضَعَ رَجُلٌ كُوَّارَاتِ النَّحْلِ فَتَعَسَّلَتْ فَهُوَ لِصَاحِبِ الْكُوَّارَاتِ، كَذَا فِي الذَّخِيرَةِ ".
البحر الرائق شرح كنز الدقائق(16 / 474):
" وعلى هذا التفصيل لو دخل صيد داره أو وقع ما نثر من الدراهم في ثيابه بخلاف معسل النحل في أرضه حيث يملكه وإن لم تكن أرضه معدة لذلك؛ لأنه من إنزال الأرض حتى يملكه تبعاً لها كالأشجار النابتة والتراب المجتمع فيها بجريان الماء وإن لم تكن معدةً".فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144012201576
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن