بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ملازمت کے وقت میں کوتاہی اور ذاتی مشاغل کا حکم


سوال

کمپنی کا وقت صبح نو سے شام چھ تک ہے، تو کیا صبح دیر سے مثلاً: دس بجے آکر شام کو وقت پر چلے جانا جائز ہے؟ یا صبح دیر میں آنے کا تدارک شام کو ایک گھنٹہ زیادہ دینے سے ہوجائے گا؟ جب کہ اس صورت میں  چوں کہ  کام سب مل کرتے ہیں تو صبح جلدی آنے والے لوگوں کو بھی ایک گھنٹہ مزید رکنا پڑتا ہے اور کمپنی کی بجلی بھی زائد خرچ ہوتی ہے؟ 

بعض لوگ کمپنی کے وقت میں اس کے کمپیوٹر پر اپنی پسندیدہ کتابیں پڑھتے ہیں، اس میں بھی کمپنی  کے آفس کا انٹرنیٹ استعمال ہوتا ہے، کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ 

جواب

کمپنی میں کام کرنے والے ملازمت کے آغاز میں باہم طے پانے والے معاہدے کے شرعاً پابند ہیں، جتنا وقت اس موقع پر طے ہوا ہے وہ ادارے کی امانت ہے اور اتنا وقت کمپنی کو دینا اور اس میں ادارے  کا ہی کام کرنا شرعاً لازم ہے، صبح دیر سے آکر شام میں جلد جانے کی صورت میں اتنے وقت کی تنخواہ لینا شرعاً جائز نہیں ۔ اسی طرح شام میں زائد وقت دینے کی صورت میں بھی  شرعی اعتبار سے صبح کے وقت کی تلافی نہ ہوگی ،خاص طور پر جب کہ زائد بجلی خرچ کرنے  کی بنا پر کمپنی کے اخراجات بھی بڑھ رہے ہوں اور دیگر ملازمین کو بھی زائد وقت دینے کی تکلیف اٹھانی پڑے تو اس عمل کی قباحت مزید بڑھ جاتی ہے،  نیز معاہدے کی خلاف ورزی  اور شرعی پہلو سے بھی ناجائز ہے۔

اسی طرح کمپنی کو دیے ہوئے وقت میں ذاتی کام کرنا ، کتابیں وغیرہ پڑھنا اور اس کے لیے کمپنی کا کمپیوٹر اور انٹرنیٹ استعمال کرنا بھی جائز نہیں، کمپنی کی اشیا ء معاہدہ کے مطابق کمپنی کے ہی کام کے لیے استعمال کی جاسکتی ہیں، مالکان کی اجازت کے بغیر ذاتی استعمال جائز نہیں۔ فقط واللہ اعلم 

 


فتوی نمبر : 143811200017

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں