بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ملازم کا دفتر کے لیے خریداری کرتے ہوئے اپنا کمیشن رکھنا


سوال

میں ایک سرکاری دفتر میں کام کرتا ہوں اور وہاں کی ضروری اشیا ءلانا میرے ذمہ ہے،  میں اپنے ٹوسوس سے سامان یا فوٹو کاپی ادھار لے کر آتا ہوں اور دکان دار جان پہچان کی وجہ سے میرے ساتھ رعایت کرتے ہیں ، پیسے بچ جاتے ہیں ، کیا یہ رقم میں استعمال کر سکتا ہوں جب کہ میری موٹر سائیکل استعمال ہوتی ہے ؟ اور ان  پیسو ں سے موٹر سائیکل کا پیٹرول آئل وغیرہ خرید کر کام وغیر ہ کرا تا ہوں اور جب کے میرا کام صرف آفس کا ہے،  یہ کام آ نا جانا اضافی ہے۔  جواب عنایت فرمائیں!

جواب

 آپ جس دفتر میں ملازم ہیں  اگر آپ دفتر کے  لیے  باہر سے کوئی ضروری اشیاء لے کر آتے ہیں تو آپ ان دفتر والوں کے وکیل بالشراء ( خریداری کا وکیل) ہوتے ہیں، اور وکیل امین ہوتا ہے، لہٰذا آپ جو بھی چیز جہاں سے بھی خرید کر لاتے ہیں تو چوں کہ وہ چیز آپ نے اپنے لیے نہیں خریدی، بلکہ دفتر کے  لیے خریدی ہے؛  اس  لیے اس چیز کے خریدنے پر دکان دار کی طرف سے جو رعایت ڈسکاؤنٹ کی  صورت میں ملتی ہے وہ آپ کا حق نہیں، بلکہ  دفتر کا حق ہے، یعنی وہ چیز جتنے پیسوں کی آپ کو ملی ہے آپ دفتر سے اتنے ہی پیسے لے سکتے ہیں ، کیوں کہ خریداری دفتر کے لیے ہوئی ہے اور آپ کی حیثیت صرف وکیل کی ہے، چناں چہ آپ کے لیے پیسے کم کروا کے دفتر سے پورے پیسے وصول  کرنا اور  زائد پیسے خود استعمال کرنا جائز نہیں ہے، آپ کا حق صرف اس تنخواہ پر ہے جو آپ کو سرکار کی طرف سے اپنے کام کے بدلے ملتی ہے، اگر آپ کے ذمہ باہر سے چیزیں لاکر دینا نہیں اور آپ کو اس کی تنخواہ نہیں ملتی ہے تو آپ باہر سے چیزیں لانے سے منع کرسکتے ہیں، لیکن چیزیں لاکر بیچ میں اپنا منافع رکھنا جائز نہیں ہے۔

درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

" أما لو قال الموكل: اشتر لي الدار الفلانية بعشرة آلاف درهم واشترى الوكيل بأقل من عشرة آلاف، فيكون قد اشترى للموكل. وقد عينت الدار التي ستشرى (بقيد الفلانية) ؛ لأنه إذا لم تعين كقولك (اشتر لي دارا في الحي الفلاني بعشرة آلاف درهم) واشترى الوكيل دارا في ذلك الحي بأقل من عشرة آلاف درهم، فإذا كانت قيمة تلك الدار عشرة آلاف درهم نفذ الشراء في حق الموكل. أما إذا كانت قيمتها أقل من عشرة آلاف درهم فلا ينفذ في حق الموكل".

(الکتاب الحادی عشر الوکالۃ، الباب الثالث،الفصل االثانی،المادۃ:۱۴۷۹ ،ج:۳؍۵۸۷،ط:دارالجیل)

وفیہ ایضاً:

"(إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة، وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا. فليس له أن يطالب بالأجرة) يستحق في الإجارة الصحيحة الأجرة المسمى. وفي الفاسدة أجر المثل۔۔۔۔لكن إذا لم يشترط في الوكالة أجرة ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا، وليس له أن يطلب أجرة. أما إذا كان ممن يخدم بالأجرة يأخذ أجر المثل ولو لم تشترط له أجرة".

(الکتاب الحادی عشر الوکالۃ، الباب الثالث،الفصل االاول،المادۃ:۱۴۶۷ ،ج:۳؍۵۷۳،ط:دارالجیل) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201499

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں