بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مقروض کے لیے قربانی کا حکم


سوال

ایک شخص نے کسی کو چھ یا سات لاکھ روپے دیے ہوئے ہیں کاروبار کے لیے, اور اس کا وہ ماہانہ منافع بھی لیتا ہے اور اس کے پاس کچھ زیور بھی پڑا ہوا ہے,  لیکن وہ مقروض ہے اور اس کے پاس پیسے بھی نہیں ہیں تو کیا اس پر قربانی ہو گی؟

جواب

واضح رہے کہ اگر کسی شخص کے اوپر قرض ہو ، اور اس کے پاس کچھ مال بھی ہو  تو  اگر یہ مال اتنا ہو کہ واجب الادا  قرض ادا کرنے کے بعد بھی عید الاضحٰی کے دنوں میں اس کے پاس بنیادی ضرورت سے زائد مال اور سامان، نصاب  (یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت)  کے برابر یا اس سے زیادہ  بچتا ہے، تو ایسے شخص پر قربانی واجب ہوگی  او راگر قرض ادا کرنے کے بعد نصاب سے کم مال بچے، تو اس پر قربانی واجب نہیں ہوگی۔

لہذا صورتِِ مسئولہ میں اگر آپ نے جو رقم کاروبار میں لگائی ہوئی ہے، وہ کاروبار کس صورت میں موجود ہے؟ مثلاً خام مال ہے،یا دکان میں مالِ  تجارت کی صورت میں موجود ہے وغیرہ ، تو اس کا حساب لگایا جائے گا کہ آپ کی رقم کا خام یا تیار مال کتنی مالیت کا ہے؟ نیزآپ کے پاس سونا یا ضرورت سے زائد سامان موجود ہے  تو ان کی بھی مالیت لگائی جائے گی، اور  کل مالیت میں سے قرض کی رقم منہا کرنے کے بعد بھی اگر آپ کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے بقدر رقم بچتی ہے (یا ضرورت سے زائد دیگر سامان کے ساتھ ملاکر اس کی اتنی مالیت ہوجاتی ہے) اور عید الاضحیٰ کے دنوں میں بھی آپ کے پاس موجود رہتی ہے تو آپ پر قربانی واجب ہو گی، پھر چاہے اپنی ملکیت میں موجود سونے کو فروخت کرکے قربانی کی جائے یاکاروبار میں سے رقم لے کر قربانی کی جائے۔ اور اگر قرض کی رقم منہا کرنے کے بعدآپ کے پاس  نصاب کے بقدر مال نہیں بچتا تو ایسی صورت میں قربانی لازم نہیں ہو گی۔

الفتاوى الهندية (5/ 292):

"ولو كان عليه دين بحيث لو صرف فيه نقص نصابه لاتجب". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200393

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں