بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مفقود کی میراث


سوال

 ایک شخص فوت ہو گیا ہے، اس کے وارثوں میں ایک بیوہ ، 1 بیٹا اور 6 بیٹیاں ہیں، بیٹا عرصہ 25 سال سے لا پتا ہے،نہ اس کے مرنے کا علم ہے اور نہ ہی جینے کا،جب کہ اس کی بیوی ( نے 5 سال قبل دوسری شادی کر ہے) اور ایک بیٹا موجود ہے،  یعنی میت کی بہو اور پوتا موجود ہیں، ان سب میں وراثت کس طرح تقسیم ہو گی؟

جواب

جس وقت مرحوم کا انتقال ہوااگر اس وقت بیٹا موجود تھا لا پتا نہیں ہوا تھا تو وراثت بیوہ ، بیٹے اور بیٹیوں میں تقسیم ہوگی، یعنی کل جائیداد کو 64 حصوں میں تقسیم کرکے 8 حصے بیوہ کو ، 14 حصے بیٹے کو اور 7 حصے ہر بیٹی کو ملیں گے، بیٹے کا حصہ محفوظ کرکے رکھا جائے گا، اگر اس کی 60سال عمر ہونے تک وہ نہ آیا تو اس کا وہ حصہ اس وقت موجود ورثا میں تقسیم کیا جائے گا۔

اگر مرحوم کے انتقال کے وقت بیٹا لاپتا تھا تو مرحوم کے ترکہ کا آٹھواں حصہ اس کی بیوہ کو دیا جائے گا، بقیہ جائیداد کا آدھا بیٹیوں کو دیا جائے اور آدھا  بیٹے کی مذکورہ عمر ہونے تک محفوظ کرکے رکھا جائے ۔

فتح القدير لكمال بن الهمام - (13 / 438):

"قال المصنف:( والأرفق ) أي بالناس ( أن يقدر بتسعين ) وأرفق منه التقدير بستين .

وعندي الأحسن سبعون لقوله صلى الله عليه وسلم:{ أعمار أمتي ما بين الستين إلى السبعين } فكانت المنتهى غالباً، وقال بعضهم : يفوض إلى رأي القاضي ، فأي وقت رأى المصلحة حكم بموته واعتدت امرأته عدة الوفاة من وقت الحكم للوفاة كأنه مات فيه معاينة ، إذ الحكمي معتبر بالحقيقي".

فتح القدير لكمال بن الهمام - (13 / 440):

"ثم الأصل أنه لو كان مع المفقود وارث لايحجب به ولكنه ينتقص حقه به يعطى أقل النصيبين ويوقف الباقي وإن كان معه وارث يحجب به لايعطى أصلاً.

بيانه : رجل مات عن ابنتين وابن مفقود وابن ابن وبنت ابن والمال في يد الأجنبي وتصادقوا على فقد الابن وطلبت الابنتان الميراث تعطيان النصف؛ لأنه متيقن به ويوقف النصف الآخر ولايعطى ولد الابن؛ لأنهم يحجبون بالمفقود، ولو كان حياً فلايستحقون الميراث بالشك".  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004201264

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں