بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

معانقہ کی شرعی حیثیت


سوال

امرد سے معانقہ کا شرعی حکم احناف کے نزدیک کیا ہے؟ نیز کیا معانقہ کے لیے سفر سے واپسی کی شرط ہے یا حکم عام ہے؟

جواب

"معانقہ "  شہوت کے ساتھ بیوی یا (شرعی قواعد کے مطابق) اپنی مملوکہ  باندی کے علاوہ کسی اور سے کرنا حرام ہے، اور ملاقات کے وقت سنت،  اور سلام کاتتمہ ہونے کی حیثیت سے مکروہ ہے، بلکہ تحیہ کا اصل طریقہ سلام ہے اور اس کا تتمہ مصافحہ ہے۔ اور نفسانی شہوت کے شائبہ کے بغیر  ، فرطِ محبت اور جوشِ مسرت کی بنا پر جائز ہے۔

لہذا امرد سے معانقہ میں اگر شہوت کا خطرہ ہو تو اس سے معانقہ کرنا جائز نہیں ہوگا،  اگر شہوت کا خطرہ نہ ہو تب بھی  امرد سے معانقہ سے اجتناب کرنا چاہیے،البتہ اگر اپنے چھوٹے بچے ہوں، یا چھوٹے بھائی وغیرہ ہوں ان  پر شفقت کے لیے جوشِ مسرت میں ان سے معانقہ کرلیا جائے تویہ ناجائز نہیں ہے۔

لما قال الشيخ المحدث الناقد العلام مولانا ظفر احمد العثماني التهانوي في اعلاء السن: 

"التقبيل والاعتناق قد يكونان علي وجه التحية،كالسلام والمصافحة، وهما اللذان نهي عنهما في الحديث؛ لأن مجرد لقاء المسلم إنما موجبه التحية فقط، فلما سأل سائل عنهما عند اللقاء فكأنه قال : إذا لقي الرجل أخاه أو صديقه فكيف يحييه؟ أيحييه بالانحناء والتقبيل والالتزام أم بالمصافحة فقط؟ فأجاب رسول الله صلي الله عليه وسلم بأن يحييه بالمصافحة  ولايحييه بالانحناء والتقبيل والاعتناق، فثبت أن التحية بهذه الأمور غير مشروعة، وإنما المشروع هو التحية بالسلام والمصافحة، وهو ما ذهب إليه أئمتنا الثلاثة :أبو حنيفة وأبو يوسف ومحمد، لأن هذه المسالة ذكره محمد في "الجامع الصغير" ونصه علي ما في البناية (4/251): محمد عن يعقوب عن أبي حنيفة قال: أكره أن يقبل الرجل من الرجل فمه أو يده أو شيئاً منه، وأكره المعانقة، ولاأري بالمصافحة بأساً"، وهذا يدل بسياقة على أن التقبيل والمعانقة الذين كرهما أبو حنيفة هما اللذان يكونان على وجه التحية عند اللقاء لا مطلقاً،

ويدل أيضاً على أن المسألة مما اتفق عليه الأئمة الثلاثة؛ لأن محمداً لم يذكر الخلاف فيها، وقد يكونان علی وجه الشهوة وهما المكاعمة، والمكامعة التي يعبر عنهما بالفارسية ب"بوس وكنار" وهما لاتجوزان عند أئمتنا الثلاثة؛ لورود النهي عنهما بخصوصهما، وبالأدلة الأخرى بعمومها، وقد يكونان لهيجان المحبة والشوق والاستحسان  عند اللقاء وغيره من غير شائبة الشهوة، وهما مباحان باتفاق أئمتنا الثلاثة؛ لثبوتهما عن النبي صلى الله عليه وسلم وأصحابه؛ ولعدم مانع شرعي عنه، هذا هو التحقيق". ( إعلاء السنن 17/418، کتاب الحظر والإباحة، باب كراهة تقبيل الرجل والتزامه أخاه علي وجه التحية، إدارة القرآن والعلوم الإسلامية) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144003200405

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں