بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مضاربت میں راس المال کی واپسی میں تاخیر کے باعث اضافی رقم کا مطالبہ کرنا


سوال

میں نے ایک سوال بھیجا تھا جو یہ تھا:

میرے پیسے زید کے پاس بطور مضاربت عرصہ سات آٹھ سال رہے ، زید بکر سے کاروبار کراتارہا اور جو منافع ملتا مجھے بھی زید دیتا رہا، لیکن گزشتہ جنوری میں بکر ایک حادثے میں ملک سے باہروفات پاگئے. کچھ دن بعد زید نے مجھے بلا کر کہاکہ میں تین چار ماہ میں آپ کے پیسے واپس کردوں گا، باقی نظام اب چلنا مشکل ہے. چوں کہ یہ پیسے جو منافع کے آتے تھےگھر کے کرایہ کے لیےتھے متبادل میرے پاس کوئی ترتیب نہیں ہے؛ لہٰذا میں نے ان سے کہاکہ آپ مجھے ماہانہ دس ہزار روپے میعاد پورے ہونے تک دیتے جائیں؛ تاکہ میں کرایہ دیتارہوں اور یہ رقم میرے راس المال ہی سے کاٹی جائے گی۔ ہوا یہ کہ میں نے ان کو بھی آفر دی کہ اگر وہ کاروبار چلاسکتے ہیں تو بھی مجھے اعتراض نہیں ، بس صرف میرےگھرکےکرایہ کی رقم نکلے، باقی ا بھی آ پ بے شک رکھیں، لیکن وہ نہیں کرسکے، اور بات ہماری رمضان تک پوری رقم واپس کرنے پر رکی. چوں کہ تادمِ تحریر وہ پوری رقم واپس کرنے میں ناکام رہے ہیں، کچھ اب بھی بقایا ہے، میں نے درمیان میں ان کو باربار کہا کہ میں اب کوئی رقم نہیں کاٹوں گا ؛ کیوں کہ اگر آپ بروقت یہ رقم دیتے تو میں متبادل انتظام کرتا، وہاں سے مجھےکرایہ ملتا، لیکن اب میں نے شروع مہینے سے جتنا کرایہ دیا ہے وہ ساری رقم آپ اصل رقم کے علاوہ دیں گے ؛ کیوں کہ آپ نے مجھے نقصان دیا ہے. اگر آپ وعدے کے مطابق رقم دیتے تو چالیس ہزار بے شک کم دیتے، لیکن اب تو سات ماہ گزرگئے اور آپ نے رقم واپس نہیں کی تو جو سات ماہ کا کرایہ میں نے دیا ہے وہ میں اب نہیں کاٹوں گا ، آپ اس رقم کے علاوہ دیں گے؛ کیوں کہ منافع کی بات تو اب ہے ہی نہیں، لیکن آپ مجھے نقصان بھی نہ دیں ۔ اب میری راہ نمائی فرمائیں اس بارے میں کہ اس نےکیے گئے وعدے کے مطابق رقم واپس نہیں کی، بلکہ چار ماہ اوپر ہوگئے اور میں کرایہ دیتا رہا ، میں نے بروقت اس کو کہابھی کہ آپ پیسے پورے کریں ورنہ میں آئندہ کرایہ آپ ہی سے لوں گا ؛کیوں کہ میرے پاس گنجائش نہیں ، کیا میں ان سے اس کرایہ میں دی گئی رقم کے مطالبے میں حق بجانب ہوں؟ اور اس رقم کو لینے کا حق دار بنتا ہوں یانہیں؟

اس کا جواب یہ ملا:

جواب:  بصورتِ مسئولہ اگر کاروبار میں کوئی حقیقی نقصان نہ ہوا ہو تو آپ صرف اپنی اصل رقم لینے کے حق دار ہیں ،اس کے علاوہ اضافی رقم لینےکاحق نہیں ہے ۔ او ر اگر کاروبار میں کوئی نقصان ہوا ہو تو اس میں آپ کو بھی اپنے سرمائے کے بقدر شریک ہونا ہوگا۔ اگر زید نے مالی وسعت کے باوجود رقم لوٹانے میں تاخیر کی اور ٹال مٹول سے کام لیا تو زید کا یہ فعل شرعاً ناروا اور ظلم ہے۔ فقط واللہ اعلم

اب میری گزارش یہ ہے کہ  میری اصل رقم تو چار لاکھ ہی ہے،  اور میں اس سے زیادہ لینانہیں چاہتا جو  سود کے زمرے میں آتا ہو ،لیکن جو رقم مجھے بر وقت نہ ملی اور مجھے اور اس سے مجھے نقصان پہنچا تو زائد رقم لے کر میں اس سے اپنے نقصان کا ازالہ کرنا چاہتا ہوں، اس رقم کے بغیر تو مجھے چار لاکھ کی واپسی نہ ہوگی، بلکہ تین لاکھ بیس ہزار کی ہوئی، تو یہ زائد رقم لینا میرے لیے جائز ہے یا نہیں؟

جواب

زید نے آپ کو راس المال  (سرمائے) کی واپسی میں جو  تاخیر کی، اس تاخیر  کی وجہ سے آپ اس سے  اپنےنقصان کی تلافی کا مطالبہ نہیں کرسکتے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (4/ 61)
"وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ." اهـ.
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200250

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں