بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مصنوعی بال لگوانا


سوال

 میرے سر کے بال نکل رہے ہیں، میں بال لگانا چاہتاہوں، ایک مولانا صاحب  نے  بولا اس پہ مسح نہیں ہوتا۔  راہ نمائی فرمائیں!

جواب

سر پر مصنوعی بال لگانے کا حکم یہ ہے کہ اگر یہ بال دوسرے انسان کے ہوں تو ان کا لگانا گناہِ کبیرہ ہے، اور انسانی بال لگوانے والوں  پر حدیث میں لعنت وارد ہوئی ہے۔اور  اگر مصنوعی بال انسان یا خنزیر  کے نہ ہوں تو ان کا لگوانا جائز ہے۔  البتہ مصنوعی وگ لگانے میں اگر کسی کو دھوکا دینا مقصد ہو تو یہ بھی درست نہیں ہے۔ حدیث شریف میں ہے:

"عن ابن عمر  أن النبی ﷺ قال : لعن الله الواصلة و المستوصلة و الواشمة و المستوشمة". ( متفق علیه ، المشکاة : ٣٨١ )
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالی نے لعنت فرمائی اس عورت پر جو اپنے بالوں میں کسی دوسرے کے بالوں کا جوڑ لگائے اور اس عورت پر جوکسی دوسری عورت کے بالوں میں اپنے بالوں کا جوڑ لگائے اور جسم گودنے اور گدوانے والی پر ( بھی لعنت فرمائی )۔

سر کے مصنوعی بال اگر گوند سے اس طرح چپکائے گئے کہ وہ جزو بدن بن گئے اور اصل سر تک پانی پہنچانا متعذر ہوگیا اور جس گوند سے چپکائے گئے وہ سرکا جز  بن گیا تو مصنوعی بالوں کا مسح  ہی کافی ہے، اور اگر وہ آسانی سے جدا ہوسکتے ہوں تو اس کو ہٹا کر مسح کرنا چاہیے، اگر مصنوعی بالوں پر مسح کرنے کی صورت میں سر کے چوتھائی حصے تک پانی کی تری نہیں پہنچی تو سر کا مسح ادا نہیں ہوگا۔

اور اگر کسی انسان کے اپنے ہی بال ایک جگہ سے نکال کر اسی انسان کے سر میں بذریعہ آپریشن ان کی پیوند کاری کرلی جائے اس طور پر کہ وہ بال اصل بالوں کی طرح جسم کا حصہ بن جائیں، اور مستقل بڑھیں بھی، تو اس کا حکم یہ ہے کہ اگر کسی نے اس طرح بال لگوالیے تو اس پر مسح کرنے سے مسح ہوجائے گا، لیکن بال گرنے کی وجہ سے اضافی بال لگوانا  ایسی ضرورت نہیں ہے جس کی وجہ سے آپریشن کی تکلیف و مشقت برداشت کی جائے، اس لیے اس آپریشن سے اجتناب کرنا چاہیے۔

"أنّ الغسل في الاصطلاح غسل البدن واسم البدن یقع علی الظاہر والباطن إلا ما یتعذر إیصال الماء إلیه أو یتعسر،کما في البحر". (شامي: ۱/۲۸۴)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 372):

"وفي اختيار: ووصل الشعر بشعر الآدمي حرام، سواء كان شعرها أو شعر غيرها؛ لقوله صلى الله عليه وسلم : «لعن الله الواصلة والمستوصلة والواشمة والمستوشمة والواشرة والمستوشرة والنامصة والمتنمصة». النامصة التي تنتف الشعر من الوجه، والمتنمصة التي يفعل بها ذلك.

(قوله: سواء كان شعرها أو شعر غيرها)؛ لما فيه من التزوير، كما يظهر مما يأتي، وفي شعر غيرها انتفاع بجزء الآدمي أيضاً، لكن في التتارخانية: وإذا وصلت المرأة شعر غيرها بشعرها فهو مكروه، وإنما الرخصة في غير شعر بني آدم تتخذه المرأة؛ لتزيد في قرونها، وهو مروي عن أبي يوسف، وفي الخانية: ولا بأس للمرأة أن تجعل في قرونها وذوائبها شيئاً من الوبر. (قوله «لعن الله الواصلة» إلخ) الواصلة: التي تصل الشعر بشعر الغير والتي يوصل شعرها بشعر آخر زوراً. والمستوصلة: التي يوصل لها ذلك بطلبها. والواشمة: التي تشم في الوجه والذراع، وهو أن تغرز الجلد بإبرة، ثم يحشى بكحل أو نيل فيزرق. والمستوشمة: التي يفعل بها ذلك بطلبها. والواشرة: التي تفلج أسنانها أي تحددها، وترقق أطرافها، تفعله العجوز تتشبه بالشواب. والمستوشرة: التي يفعل بها بأمرها اهـ اختيار، ومثله في نهاية ابن الأثير، وزاد أنه روي عن عائشة - رضي الله تعالى عنها - أنها قالت: ليس الواصلة بالتي تعنون. ولابأس أن تعرى المرأة عن الشعر، فتصل قرناً من قرونها بصوف أسود، وإنما الواصلة التي تكون بغياً في شبيهتها، فإذا أسنت وصلتها بالقيادة. والواشرة كأنه من وشرت الخشبة بالميشار غير مهموز". اهـ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200134

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں