بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسنون اعتکاف کی قضا/ رشتہ دار کی فوتگی کی وجہ سے اعتکاف توڑنا


سوال

 گزشتہ رمضان المبارک میں ایک شخص نے بیوی کے فوت ہونے کی وجہ سے مسنون اعتکاف  توڑدیا تھا، اب اس کی تلافی کس صورت میں ہوسکتی ہے؟ اور ایسی صورتِ حال میں اعتکاف کو توڑنے کا کیا حکم ہے؟ براہِ کرم ازروئے شریعت راہ نمائی فرمائیں!

جواب

1۔۔ مسنون اعتکاف ٹوٹ جائے تو اس کی قضا یہ ہےکہ ایک دن ،رات روزے کے ساتھ  اعتکاف کرلے، خواہ رمضان میں کرے یا رمضان کے بعد، یعنی غروب آفتاب سے پہلے مسجد چلے جائے اور اگلے دن روزہ رکھےاور پھر غروب آفتاب کے بعد واپس آجائے۔

2۔۔  اپنے کسی عزیز کی فوتگی کی صورت میں بھی مسجد سے نہ نکلے تو بہتر ہے، لیکن اگر بہت قریبی رشتے یا شدتِ غم کی وجہ سے نکل جائے تو  گناہ نہیں ہوگا، البتہ اعتکاف فاسد ہوجائے گا، بعد میں ایک دن ،رات کی قضا لازم  ہوگی۔

حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح (ص: 703):
'' قوله: "بلا عذر معتبر" أي في عدم الفساد فلو خرج لجنازة محرمة أو زوجته فسد ؛ لأنه وإن كان عذراً إلا أنه لم يعتبر في عدم الفساد، قوله: "ولا إثم عليه به" أي بالعذر أي وأما بغير العذر فيأثم ؛ لقوله تعالى: ﴿ وَلَا تُبْطِلُوْآ اَعْمَالَكُمْ ﴾''۔ [محمد: 33]

البحر الرائق (2/ 326):
'' أو خرج لجنازة وإن تعينت عليه، أو لنفير عام، أو لأداء شهادة، أو لعذر المرض، أو لإنقاذ غريق، أوحريق، ففرق الشارح هنا بين المسائل حيث جعل بعضها مفسداً والبعض لا، تبعاً لصاحب البدائع مما لا ينبغي، نعم الكل عذر مسقط للإثم بل قد يجب عليه الإفساد إذا تعينت عليه صلاة الجنازة، أو أداء الشهادة بأن كان ينوي حقه إن لم يشهد، أو لإنجاء غريق ونحوه والدليل على ما ذكره القاضي ما ذكره الحاكم في كافيه بقوله: فأما في قول أبي حنيفة فاعتكافه فاسد إذا خرج ساعةً لغير غائط، أو بول، أو جمعة''.
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201026

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں