بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مسلمانوں کا غیر مسلم ممالک میں رہائش اختیار کرنے کا حکم


سوال

کن وجوہات کی بنا پر مسلمان کا دارالکفر میں رہنا جائز ہے؟ وہ وجوہات بتا دیں!

جواب

کسی بھی اسلامی ملک کا رہائشی اگر اپنا ملک چھوڑ کر دار الکفر میں رہائش اختیار کرتاہے تو اس کے لیے درج ذیل احکام ہیں:

  • بلا کسی ضرورت و حاجت اور شدید مجبوری کے  صرف دولت کے حصول اور معیارِ زندگی کو بلند کرنے یا اپنے معاشرے میں معزز بننے اور دوسرے مسلمانوں پر اپنی بڑائی جتلانے  کے لیے مسلم ملک کو چھوڑ کر  غیر مسلم ممالک میں مستقل رہائش اختیار کرنا اور دار الحرب کی شناخت و قومیت کو افضل سمجھتے ہوئے دار الاسلام کی شناخت و قومیت پر ترجیح دے کر غیر مسلم ملک کی شہریت وقومیت حاصل کرنا  جائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ اس صورت میں آدمی محض دنیاوی لالچ کی وجہ سے اپنے دین و ایمان کو اور اپنے دینی تشخص کو داؤ پر لگاتا ہے اور عام طور سے تجربہ اس پر شاہد ہے کہ جو لوگ صرف ان اغراض کی وجہ سے غیر مسلم ممالک جاتے ہیں تو وہ آہستہ آہستہ ان ممالک میں موجود گناہوں اور   منکرات کے سمندر میں ڈوب کر (اگر ایمان سے محروم نہ بھی ہوں)  کم از کم دینی احکام اور اسلامی تشخص  سے ضرور محروم ہو جاتے ہیں،  اور رفتہ رفتہ وضع قطع (لباس، حلیہ، شکل و صورت) اور بود و باش میں مکمل طور پر کفار کی مشابہت  نہ صرف اختیار کرتے ہیں، بلکہ کفار کی مشابہت کو اپنے لیے  باعثِ فخر سمجھتے ہیں،  جو کہ صریح حرام ہے۔
  • مزید یہ کہ اگر بیوی بچے  بھی ساتھ ہوں تو خاندان کا سربراہ ہونے کی وجہ سے ان کی دینی تربیت کا انتظام نہ کرنے  کے باعث ان کی بے دینی کا گناہ اور وبال بھی اسی شخص پر پڑے گا، چنانچہ اسی وجہ سے حدیث شریف میں شدید ضرورت  کے بغیر کفار و مشرکین کے ساتھ رہائش اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص مشرک کے ساتھ موافقت کرے اور اس کے ساتھ رہائش اختیار کرے وہ اسی کے مثل ہے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے  کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میں ہر اس مسلمان سے بری ہوں جو مشرکین کے درمیان رہائش اختیار کرے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ! اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسلام کی آگ اور کفر کی آگ دونوں ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں، تم یہ امتیاز نہیں کر سکو گے کہ یہ مسلمان کی آگ ہے یا مشرکین کی آگ ہے۔
  • البتہ اگر کوئی مسلمان کسی شدید عذر و مجبوری کی وجہ سے غیر مسلم ممالک میں جاکر رہائش اختیار کرتا ہے، مثلاً بغیر کسی جرم کے اپنے ملک میں مظالم اور قید و بند کی صعوبتیں اٹھانی پڑ رہی ہوں اور ان مظالم سے بچنے کی کوئی اور صورت نہ ہو یا کوئی شخص شدید معاشی بحران کا شکار ہو اور کوشش کے باوجود اسلامی ملک میں معاشی وسائل دست یاب نہ ہوسکیں  یا کوئی شخص غیر مسلموں تک اسلام کی دعوت پہنچانے اور غیر مسلم ملک میں مقیم مسلمانوں کو دینی احکامات کی تعلیمات دینے اور  دینِ اسلام پر ان کی ثابت قدمی برقرار رکھنے کی نیت سے غیر مسلم ممالک میں جاکر رہائش اختیار کرتا ہے تو یہ جائز ہے، بشرطیکہ  اسے اس بات کا مکمل اعتماد ہو کہ وہ غیر مسلم ملک میں شرعی احکامات کی مکمل پیروی کرکے اپنے دین و ایمان کو محفوظ رکھ سکتا ہے اور اس ملک میں موجود منکرات اور فحاشی کے سمندر میں  اپنے آپ کو ڈوبنے سے بچا سکتا ہے، اسی طرح اگر بیوی بچے ساتھ ہوں تو ان کے متعلق یہ اطمینان ہونا بھی شرط ہے۔
  • غیر مسلم ملک میں پہلے سے آباد نومسلم جس کے لیے دوسرے ممالک میں رہائش رکھنا مشکل ہو، اور اسی ملک میں رہتے ہوئے دینِ اسلام پر چلنے میں رکاوٹ نہ ہو تو اس کے لیے بھی وہاں رہائش رکھنے کی اجازت ہے۔
  • سنن أبي داودمیں ہے :

    "حدثنا محمد بن داود بن سفيان، حدثنا يحيى بن حسان، أخبرنا سليمان بن موسى أبو داود، حدثنا جعفر بن سعد بن سمرة بن جندب، حدثني خبيب بن سليمان، عن أبيه سليمان بن سمرة، عن سمرة بن جندب، أما بعد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من جامع المشرك وسكن معه فإنه مثله»".

    (الكتاب: سنن أبي داود، المؤلف: أبو داود سليمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشير بن شداد بن عمرو الأزدي السّجِسْتاني (المتوفى: 275هـ)، المحقق: محمد محيي الدين عبد الحميد، الناشر: المكتبة العصرية، (3/ 93)،كتاب الجهاد،  باب في الإقامة بأرض الشرك)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200282

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں