بریلوی یا شیعہ لڑکی کے ساتھ نکاح کرنا کیسا ہے؟
واضح رہے کہ جو شخص ضروریاتِ دین میں سے کسی چیز کامنکر ہو تو ایسا شخص دائرہ اسلام سے خارج ہے اور اس کے ساتھ کسی مسلمان کا نکاح ہرگز جائز نہیں، اگر کسی نے کرلیا تو ایسا نکاح شرعاً منعقد ہی نہیں ہوگا۔ البتہ جو شخص عقائدِ منصوصہ کا منکر نہ ہو صرف بدعات و رسومات کے بندھن سے جڑا ہو، کلمہ گو ہو ، اس سے نکاح اگرچہ جائز ہے تاہم مناسب نہیں۔
پس صورتِ مسئولہ میں اگر کسی شیعہ کا درج ذیل عقائد میں سے کوئی عقیدہ ہو تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوگا، اور کسی کلمہ گو مسلمان مرد یا عورت کا نکاح اس سے اس وقت تک جائز نہیں جب تک وہ اپنے عقیدہ سے سچے دل سے توبہ تائب ہو کر دائرہ اسلام میں داخل نہ ہوجائے:
(1)حضرت علی کو(نعوذباللہ)خدا ومعبود مانتا ہو۔ (2) قرآن کریم کوتحریف یا تبدیل شدہ مانتاہو۔ (3) حضرت ابوبکر صدیق کی صحابیت کا انکار کرتا ہو۔ (4) اس بات کا قائل ہو کہ حضرت جبرائیل سے وحی لانے میں غلطی ہوئی ہے۔ (5) حضرت عائشہ صدیقہ پر لگائی گئی تہمت کوصحیح مانتا ہو ۔ (6) یا کوئی اورایسا عقیدہ رکھتا ہو جو قرآن کریم کے صریح نص کے خلاف ہو ۔
البتہ بریلوی چوں کہ کلمہ گو مسلمان ہیں ان سے نکاح جائز ہے بشرطیکہ وہ شرکیہ عقائد نہ رکھتی ہو یا توبہ کرلے۔
فتاوی شامی میں ہے:
" أَقُولُ: نَعَمْ نَقَلَ فِي الْبَزَّازِيَّةِ عَنْ الْخُلَاصَةِ أَنَّ الرَّافِضِيَّ إذَا كَانَ يَسُبُّ الشَّيْخَيْنِ وَيَلْعَنُهُمَا فَهُوَ كَافِرٌ، وَإِنْ كَانَ يُفَضِّلُ عَلِيًّا عَلَيْهِمَا فَهُوَ مُبْتَدِعٌ. اهـ. وَهَذَا لَا يَسْتَلْزِمُ عَدَمَ قَبُولِ التَّوْبَةِ. عَلَى أَنَّ الْحُكْمَ عَلَيْهِ بِالْكُفْرِ مُشْكِلٌ، لِمَا فِي الِاخْتِيَارِ اتَّفَقَ الْأَئِمَّةُ عَلَى تَضْلِيلِ أَهْلِ الْبِدَعِ أَجْمَعَ وَتَخْطِئَتِهِمْ وَسَبُّ أَحَدٍ مِنْ الصَّحَابَةِ وَبُغْضُهُ لَا يَكُونُ كُفْرًا، لَكِنْ يُضَلَّلُ إلَخْ…. لَا شَكَّ فِي تَكْفِيرِ مَنْ قَذَفَ السَّيِّدَةَ عَائِشَةَ – رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهَا – أَوْ أَنْكَرَ صُحْبَةَ الصِّدِّيقِ، أَوْ اعْتَقَدَ الْأُلُوهِيَّةَ فِي عَلِيٍّ أَوْ أَنَّ جِبْرِيلَ غَلِطَ فِي الْوَحْيِ، أَوْ نَحْوُ ذَلِكَ مِنْ الْكُفْرِ الصَّرِيحِ الْمُخَالِفِ لِلْقُرْآنِ". (٤/ ٢٣٧) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144001200637
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن