بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مسلمان لڑکے کا آغاخانی لڑکی سے نکاح کرنے کا حکم


سوال

آغا خانی فیملی کا ایک بیٹا مسلمان ہوگیا، باقی تمام فیملی کٹر آغا خانی ہیں، اس لڑکے کی شادی ایک آغا خانی لڑکی سے ہی طے تھی، نکاح کے لیے لڑکے کی ماں کی ضد ہے کہ نکاح جماعت خانے میں ہی ہوگا، جب کہ لڑکا اس شرط پر راضی ہے کہ وہ مسجد میں دوبارہ نکاح پڑھوائے گا، جس پر لڑکی والے بھی رضامند ہیں، لیکن لڑکی ہے آغاخانی، کیا یہ نکاح منعقد ہوگا؟

جواب

آغا خانی فرقہ اپنے کفریہ عقائد کی وجہ سے دائرہ اسلام سے خارج ہے؛ اس لیے اس مسلمان لڑکے کا نکاح آغاخانی لڑکی سے منعقد نہیں ہوگا، البتہ اگر وہ لڑکی اپنے آغا خانی عقائد سے سچی توبہ کرلے اور سچے دل سے اسلام قبول کر کے مسلمان ہوجائے تو پھر اس لڑکے کا نکاح اس لڑکی سے جائز ہوگا۔ لیکن اس صورت میں بھی جماعت خانے میں آغا خانی نکاح خواں سے آغا خانیوں کے طریقہ پر نکاح پڑھوانا درست نہیں ہوگا، بلکہ مسلمانوں کے طریقہ پر مسلمان نکاح خواں سے ہی نکاح پڑھوایا جائے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

{وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّى يُؤْمِنَّ وَلَأَمَةٌ مُؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ} [البقرة: 221]

ترجمہ: اور نکاح مت کرو کافر عورتوں کے ساتھ جب تک کہ وہ مسلمان نہ ہوجاویں۔ (بیان القرآن)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 270):

"ومنها: أن لاتكون المرأة مشركةً إذا كان الرجل مسلماً، فلايجوز للمسلم أن ينكح المشركة؛ لقوله تعالى: {ولا تنكحوا المشركات حتى يؤمن}". [البقرة: 221] فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200826

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں