بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسلمان خاتون کا کافر سے نکاح کرنا


سوال

اگر کوئی مسلمان عورت کسی غیر مسلم مرد سے جان بوجھ کر نکاح کرتی ہے تو اس کا کیا حکم ہے؟ کیا وہ عورت مسلمان رہے گی یا نہیں؟ اور اس کی سزا کیا ہے؟ جواب جلد عنایت فرمائیں!

جواب

کسی غیر مسلم مرد سے خواہ وہ کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو ، مسلمان عورت کا نکاح  نہیں ہوسکتا، اس لیے جب تک مذکورہ عورت اس غیرمسلم مرد کے ساتھ رہے گی، مسلسل گناہِ کبیرہ کی مرتکب ہوگی ، ایسی عورت  کو سمجھا کر غیرمسلم مرد سے علیحدہ کیا جائے ۔اگر عورت نے اپنا مذہب ترک نہیں کیا، بلکہ خواہشاتِ نفسانیہ کی بنا پر غیر مسلم کے ساتھ چلی گئی ایسی صورت میں مذکورہ عورت اسلام سے خارج نہیں، البتہ سخت جرم اورگناہ کی مرتکب ہے ۔جرائم کی بنا پر سزا کا نفاذ اسلامی حکومت کی ذمہ داری ہے، عزیزواقارب کو چاہیے کہ مذکورہ عورت کو اس جرم کی شناعت وقباحت بتلاکر اور سمجھاکر دونوں میں فوراً جدائی کروادی جائے۔البتہ اگر کسی مسلمان خاتون نے مذکورہ قرآنی حکم کا انکار کرتے ہوئے اور اسے حلال سمجھتے ہوئے ایسا قبیح اقدام کیا ہو تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے گی، جس کی وجہ سے سچے دل سے توبہ کرتے ہوئے تجدیدِ ایمان کرنا لازم ہوگا۔  بدائع الصنائع میں ہے:

'ومنها: إسلام الرجل إذا كانت المرأة مسلمةً فلا يجوز إنكاح المؤمنة الكافر ؛ لقوله تعالى : ﴿ وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَتّٰى يُؤْمِنُوا﴾؛ ولأن في إنكاح المؤمنة الكافر خوف وقوع المؤمنة في الكفر؛ لأن الزوج يدعوها إلى دينه، والنساء في العادات يتبعن الرجال فيما يؤثرون من الأفعال ويقلدونهم في الدين إليه، وقعت الإشارة في آخر الآية بقوله عز وجل:﴿ أُولٰئِكَ يَدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ ﴾؛ لأنهم يدعون المؤمنات إلى الكفر، والدعاء إلى الكفر دعاء إلى النار؛ لأن الكفر يوجب النار، فكان نكاح الكافر المسلمة سبباً داعياً إلى الحرام فكان حراماً، والنص وإن ورد في المشركين لكن العلة، وهي الدعاء إلى النار يعم الكفرة، أجمع فيتعمم الحكم بعموم العلة، فلا يجوز إنكاح المسلمة الكتابي كما لا يجوز إنكاحها الوثني والمجوسي؛ لأن الشرع قطع ولاية الكافرين عن المؤمنين بقوله تعالى:﴿ وَلَنْ يَّجْعَلَ اللّٰهُ لِلْكٰفِرِيْنَ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ سَبِيْلًا﴾، فلو جاز إنكاح الكافر المؤمنة لثبت له عليها سبيل، وهذا لايجوز".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200718

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں