مسجدکی پرانی دریاں( صفیں )مدرسہ میں دےسکتےہیں، جب کہ نہ کسی مسجدکوضرورت ہے اورنہ کوئی خریدتاہے؟ جواب باحوالہ چاہیے!
مسجدکے مملوکہ آلات اگر شکستہ یا پرانےہوکر ناقابلِ انتفاع ہوجائیں یا مسجد کی ضرورت سے زیادہ ہوں تو انہیں فروخت کرکے اسی مسجد کے مصارف میں استعمال کیا جائے گا،اگر اس مسجد کو فی الحال یا مستقبل قریب میں ضرورت نہ ہو تو قریب ترین مسجد میں رقم خرچ کی جائےگی، مسجد کمیٹی کے لیے بذاتِ خود مدرسہ میں دینا جائز نہ ہوگا، البتہ اگر ان اشیاء کا فروخت ہونا ممکن نہ ہو اور ان اشیاء کے ضائع ہوجانے کا قوی امکان ہو تو ایسی صورت میں امام محمد رحمہ اللہ کے قول کے مطابق وہ واقف کی ملکیت میں دے دی جائیں اور واقف اپنی ملکیت میں لینے کے بعد وہ چاہے تو مدرسہ میں دے دے ۔
توضیح:مسجد کے مملوکہ آلات وہ ہیں جو مسجد کی آمدنی سے خریدے گئے ہوں یا بطور عطیہ وچندہ کسی نے مسجد کےلیے دیے ہوں جیسے دریاں،لوٹے،کرسیاں وغیرہ۔
حاشية رد المحتار على الدر المختار - (4 / 359):
" (قوله: ومثله حشيش المسجد الخ ) أي الحشيش الذي يفرش بدل الحصر كما يفعل في بعض البلاد كبلاد الصعيد كما أخبرني به بعضهم، قال الزيلعي: وعلى هذا حصير المسجد وحشيشه إذا استغنى عنهما يرجع إلى مالكه عند محمد، وعند أبي يوسف ينقل إلى مسجد آخر، وعلى هذا الخلاف الرباط والبئر إذا لم ينتفع بهما ا هـ وصرح في الخانية بأن الفتوى على قول محمد، قال في البحر: وبه علم أن الفتوى على قول محمد في آلات المسجد، وعلى قول أبي يوسف في تأبيد المسجد ا هـ والمراد بآلات المسجد نحو القنديل والحصير بخلاف أنقاضه لما قدمنا عنه قريباً من أن الفتوى على أن المسجد لايعود ميراثاً ولايجوز نقله ونقل ماله إلى مسجد آخر". (شامي ٤/ ٣٥٩) فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144003200304
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن