بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کے چندے سے امام، مؤذن اور خادم کی تنخواہ ادا کرنے کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہماری مسجد کی انتظامیہ کے حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ مسجد کے گلّے میں جمع ہونے والی رقم سے امام مسجد اور مؤذن یا مسجد کے خادم کو وظیفہ دینا درست نہیں ہے۔ ان کا خیال ہے کہ گلّے میں جمع ہونے والی رقم کو صرف مسجد کی مرمت، تعمیر یا مسجد کی ضروریات (چٹائی، دری وغیرہ) کی خریداری کے لیے ہی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس کی وجہ سے انتظامیہ مؤذن اور خادم کا معقول وظیفہ مقرر کرنے سے گریز کررہی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ گلّے میں جمع ہونے والی رقم کے علاوہ عطیات کی مد میں جمع ہونے والی رقم مؤذن اور خادم کے معقول وظیفے کے لیے ناکافی ہے۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ آیا مسجد کے گلّےمیں جمع ہونے والی رقم سے امام مسجد یا مؤذن اور خادم کی تنخواہ ادا کرنا درست ہے؟ نیز جو انتظامیہ کے حضرات اس عذر کی وجہ سے مؤذن یا خادم کا معقول وظیفہ مقرر کرنے سے انکاری ہیں ان کا یہ فعل شرعاً درست ہے یا قابل مذمّت؟

جواب

مسجد کے امام صاحب، مؤذن اور خادم کی تنخواہ بھی مسجد کی ضروریات میں داخل ہے، اس لیے مسجد کے گلے (چندہ بکس) میں جمع ہونے والی رقم سے  امام، مؤذن اور خادم کی تنخواہ ادا کرنا شرعاً درست ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"( ويبدأ من غلته بعمارته ) ثم ما هو أقرب لعمارته كإمام مسجد ومدرس مدرسة يعطون بقدر كفايتهم، ثم السراج والبساط كذلك إلى آخر المصالح، وتمامه في البحر". (4/367 دارالفکر بیروت) (کفایت المفتی 7/67،ط:دارالاشاعت) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200325

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں