ایک شخص جو کہ مسجد کا چندہ کرتا تھا اس نے چندے میں سے پیسے چرانا شروع کردیے، پھر اس نے توبہ کرلی تو جتنے پیسے اس نے چوری کیے تھے کیا اس کے ذمے ان کا لوٹانا ضروری ہے؟ اور طریقہ کیا ہوگا جب کہ وہ ابھی کماتا نہیں ہے اور اس کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں ہیں اور اس کو اندازہ بھی نہیں ہے کہ کتنے پیسے ہوئے تھے؟
مذکورہ شخص کا مسجد کے چندہ میں سے پیسے چوری کرنا ناجائز اور حرام کام تھا، جس پر اسے اللہ تعالیٰ کے دربار میں سچے دل سے توبہ و استغفار کر کے معافی مانگنی چاہیے۔ اس گناہ کی تلافی کے لیے اس پر لازم ہے کہ جتنے پیسے اس نے چوری کیے تھے اتنے پیسے واپس اسی مسجد کے چندہ میں ڈال دے جس مسجد کے چندے میں سے اس نے وہ پیسے چوری کیے تھے۔ اگر پیسے حتمی طور پر یاد نہیں ہیں تو ایک محتاط اندازہ لگاکر اس سے کچھ زیادہ ڈال دے۔ اگر فی الحال اس کے پاس اتنے پیسے نہ ہوں تو تھوڑے تھوڑے کر کے وقفہ وقفہ سے جمع کر کے ڈالتا رہے، لیکن اس بارے میں بالکل بھی سستی یا لاپرواہی سے کام نہ لے؛ کیوں کہ مسجد کے چندہ کا پیسہ مسلمانوں کا اجتماعی مال ہے، اور مسلمانوں کے اجتماعی مال میں خیانت کرنے کا عذاب بہت سخت ہے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144004200460
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن