بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کے چندہ سے امام کے لیے تنخواہ مقرر کرنا


سوال

ہماری قریبی مسجد کے امام صاحب کی نہ تو کوئی تنخواہ مقرر ہے اور نہ کوئی اور وظیفہ۔ امام صاحب بہت غریب آدمی ہیں۔ مسجد کے متولی بھی یہی ہیں۔ ایک بار بہت پہلے 1000 تنخواہ مقرر ہوئی، لیکن اس کی ادائیگی بھی نہیں کی گئی۔ گزارش یہ ہے کہ آیا امام صاحب اپنی تنخواہ مسجد کے مال سے خود لے سکتا ہے؟ اگر ہاں تو پھر کتنی تنخواہ لے۔ نیز مسجد کے متولی ہونے کا وظیفہ کیا مسجد کے مال سے لیا جا سکتا ہے ؟اگر ہاں تو پھر کتنا؟ امام صاحب نے ایک با ر خود مسجد کی کمیٹی بنائی، لیکن کمیٹی کے ارکان امام کی تنخواہ کے بارے غیر سنجیدہ رہے اور مسجد کے انتظامی و اخراجاتی امور امام صاحب کو ہی دینے پڑے ،بلکہ بعض اوقات تو کمیٹی کے ارکان نے مسجد میں آنا ہی بند کر دیا۔ ایسی صورت حال میں امام صاحب اپنے گزر کی کیسے صورت نکالیں؟

جواب

مسجد کے چندہ کی عمومی رقم مسجد کے تمام ضروری مصارف بشمول امام ومؤذن کی تنخواہ میں خرچ کرناجائز اور درست ہے۔اس لیے امام صاحب اپنے لیے چندہ کی رقم سےتنخواہ مقررکرسکتے ہیں۔تنخواہ اتنی مقرر کی جائے گی جتنی عام طورپر ائمہ کو دینے کارواج ہے۔ البتہ بہتر ہے کہ تنخواہ کے تقرر کے سلسلے میں دو دین دار اور قابلِ اعتماد ساتھیوں کو گواہ بنالیاجائے۔ ''فتاوی شامی'' میں ہے:

''( ويبدأ من غلته بعمارته ) ثم ما هو أقرب لعمارته كإمام مسجد ومدرس مدرسة يعطون بقدر كفايتهم ثم السراج والبساط كذلك إلى آخر المصالح، وتمامه في البحر''۔(4/367دارالفکر بیروت)(کفایت المفتی 7/67،ط:دارالاشاعت)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200790

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں