بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کے محراب کی حقیقت اور وجہ تسمیہ


سوال

مسجد کے محراب کی حقیقت کیا ہے ؟اورمحراب کی وجہ تسمیہ ارشاد فرمائیں ؟ کیامحراب سےمراد جائے اسلحہ یہ معنی کہاں تک ٹھیک ہے؟

جواب

مسجد کے مسجد ہونے کے لیے  کوئی مخصوص شکل و وضع لازم نہیں کی گئی، لیکن چند چیزیں مسجد کی مخصوص علامت کی حیثیت میں معروف ہیں، ایک ان میں سے مسجد کی محراب ہے، جو قبلہ کا رُخ متعین کرنے کے لیے تجویز کی گئی ہے ہے۔

حافظ بدرالدین عینی رحمہ اللہ ”عمدۃ القاری“ میں لکھتے ہیں:

”ذکر أبوالبقاء أن جبریل علیه الصلاة والسلام وضع محراب رسول الله صلی الله علیه وسلم مسامة الکعبة، وقیل: کان ذلک بالمعاینة بأن کشف الحال وأزیلت الحوائل فرأی رسول الله صلی الله علیه وسلم الکعبة فوضع قبلة مسجده علیها.“ (عمدة القاري شرح بخاری، الجزء الرابع ص:۱۲۶، طبع دارالفکر، بیروت)

ترجمہ:…”اور ابوالبقاء نے ذکر کیا ہے کہ جبریل علیہ السلام نے کعبہ کی سیدھ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے محراب بنائی اور کہا گیا ہے کہ یہ معائنہ کے ذریعہ ہوا، یعنی آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے پردے ہٹادیے گئے اور صحیح حال آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر منکشف ہوگیا، پس آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کو دیکھ کر اپنی مسجد کا قبلہ رُخ متعین کیا۔“

اس سے دو اَمر واضح ہوتے ہیں، اوّل یہ کہ محراب کی ضرورت تعینِ قبلہ کے لیے ہے، تاکہ محراب کو دیکھ کر نمازی اپنا قبلہ رُخ متعین کرسکے۔ دوم یہ کہ جب سے مسجدِ نبوی کی تعمیر ہوئی، اسی وقت سے محراب کا نشان بھی لگادیا گیا، خواہ حضرت جبریل علیہ السلام نے اس کی نشان دہی کی ہو، یا آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بذریعہ کشفِ وحی خود ہی تجویز فرمائی ہو۔

البتہ یہ جوف دار (نصف گنبد یا گنبد نما) محراب جو آج کل مساجد میں ”قبلہ رُخ“ ہوا کرتی ہے، اس کی ابتدا خلیفہٴ راشد حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے اس وقت کی تھی جب وہ ولید بن عبدالملک کے زمانے میں مدینہ طیبہ کے گورنر تھے، (وفاء الوفاء ص:۵۲۵ وما بعد) یہ صحابہ وتابعین ؒ کا دور تھا، اور اس وقت سے آج تک مسجد میں محراب بنانا مسلمانوں کا شعار رہا ہے۔

البحر الرائق میں ہے:

"وفي فتاوى قاضي خان: وجهة الكعبة تعرف بالدليل، والدليل في الأمصار والقرى المحاريب التي نصبها الصحابة والتابعون -رضي الله عنهم أجمعين- فعلينا اتباعهم في استقبال المحاريب المنصوبة". (1/ 300)
ترجمہ:…”اور قبلہ کا رُخ کسی علامت سے معلوم ہوسکتا ہے، اور شہروں اور آبادیوں میں قبلہ کی علامت وہ محرابیں ہیں جو صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم اجمعین نے بنائیں، پس بنی ہوئی محرابوں میں ہم پر ان کی پیروی لازم ہے۔“

یعنی یہ محرابیں، جو مسلمانوں کی مسجدوں میں صحابہ و تابعینؒ کے زمانے سے چلی آتی ہیں، دراصل قبلہ کا رُخ متعین کرنے کے لیے  ہیں، اور اُوپر گزر چکا ہے کہ استقبالِ قبلہ ملتِ اسلامیہ کا شعار ہے، اور محراب جہتِ قبلہ کی علامت کے طور پر مسجد کا شعار ہے، (اور اس سے امام کا وسط میں کھڑا ہونے اور صفوں کا درمیان بھی معلوم ہوتا ہے)۔

2۔۔ ’’لغت‘‘ کا تعلق سماع سے ہے، یعنی جس لفظ کا معنی اہلِ لغت سے جوسنا گیا ہے وہ اسی معنی میں مستعمل ہوگا، لغت میں قیاس نہیں کیا جاسکتا، لفظ ”حرب“ کے مادہ میں تین حروف ہیں، ”ح، ر، ب“ اس مادہ اشتقاق  میں تین معنی پائے جاتے ہیں، (1) سلب، (2) رینگنے والے کیڑے (3) بعض مجالس، بیٹھک۔

پھر  ان تینوں اصول سے مختلف معنوں کے لیے یہ مادہ استعمال ہوتا ہے،  جنگ، لڑائی اور بہادری کے لیے  ”حرب“  استعمال ہوتا ہے، اور یہ پہلے اشتقاق سے ہے یعنی سلب والے معنی سے،  اور کیڑے  اور رینگنے والے جانوروں کے وغیرہ کے لیے اسی مادہ سے ”حرباء“ استعمال ہوتا ہے، اور  اس مادہ سے تیسرا لفظ ”محراب“ استعمال ہوتا جو مجالس اور بیٹھک کے معنی میں ہے۔

پھر محراب کے مختلف معنی ہیں، لیکن ان سب میں بیٹھک اور مجلس والا معنی اس کے اندر موجود ہوگا:

محراب کے چند معانی  یہ  ہیں: (1)کمرہ (2) بالا خانہ  (3)  گھر کی اچھی اور معزز  جگہ (4) گھر کا صدر مقام یا ابتدائی حصہ جہاں معزز لوگ بیٹھتے ہیں (5) محل ، (6) مسجد یا مکان کی بلند جگہ (7)بادشاہ کی بیٹھک، جہاں وہ تنہا بیٹھتا ہے۔

انہی معنی کے پیشِ نظر امام کے کھڑے ہونے کی جگہ کو  ”محراب‘‘  کہتے ہیں، اس لیے کہ وہ مسجد میں سب سے معزز  جگہ ہوتی ہے، اور جس طرح بادشاہ جہاں تنہا بیٹھتا ہے اس کو محراب کہتے ہیں، اسی طرح چوں کہ امام وہاں تنہا اور اکیلا ہوتا ہے؛ اس لیے اس کو محراب کہتے ہیں۔  

اور اگر اس کو حرب یعنی جنگ کے معنی سے لیں تو بھی بعض علماء نے اس کی یہ توجیہ ذکر کی ہے محراب میں امام کی شیطان سے جنگ ہوتی ہے، اس لیے اس کو محراب کہتے ہیں۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (2/ 624):
"(وعن أنس قال: رأى النبي صلى الله عليه وسلم نخامة) : بالضم (في القبلة) ، أي: جدار المسجد الذي يلي القبلة، وليس المراد بها المحراب الذي يسميه الناس قبلة؛ لأن المحاريب من المحدثات بعده صلى الله عليه وسلم، ومن ثم کره جمع من السلف اتخاذها والصلاة فيها قال القضاعي: وأول من أحدث ذلك عمر بن عبد العزيز، وهو - يومئذ عامل للوليد بن عبد الملك على المدينة لما أسس مسجد النبي صلى الله عليه وسلم وهدمه، وزاد فيه. ويسمى موقف الإمام من المسجد ’’محراباً‘‘ ؛ لأنه أشرف مجالس المسجد، ومنه قيل للقمر: محراب، لأنه أشرف المنازل، وقيل: المحراب مجلس الملك سمي به؛ لانفراده فيه، وكذلك محراب المسجد؛ لانفراد الإمام فيه، وقيل: سمي بذلك؛ لأن المصلي يحارب فيه الشيطان".

مقاييس اللغة (2/ 48):
’’(حرب) الحاء والراء والباء أصول ثلاثة: أحدها السلب، والآخر دويبة، والثالث بعض المجالس. 
فالأول: الحرب، واشتقاقها من الحرب وهو السلب. يقال حربته ماله، وقد حرب ماله، أي سلبه، حربا. والحريب: المحروب. ورجل محراب: شجاع قؤوم بأمر الحرب مباشر لها. وحريبة الرجل: ماله الذي يعيش به، فإذا سلبه لم يقم بعده. ويقال أسد حرب، أي من شدة غضبه كأنه حرب شيئا أي سلبه. وكذلك الرجل الحرب.
وأما الدويبة [ف] الحرباء. يقال أرض محربئة، إذا كثر حرباؤها. وبها شبه الحرباء، وهي مسامير الدروع. وكذلك حرابي المتن، وهي لحماته.
والثالث: المحراب، وهو صدر المجلس، والجمع محاريب. ويقولون: المحراب الغرفة في قوله تعالى: {فخرج على قومه من المحراب} [مريم: 11] . وقال: ربة محراب إذا جئتها ... لم ألقها أو أرتقي سلماً‘‘.

الزاهر في معاني كلمات الناس (1/ 433):
’’قال أبو بكر: قال أبو عبيدة: المحراب عند العرب: سيِّد المجالس، ومُقَدُّمها، وأشرفها. وإنما قيل للقبلة محراب، لأنها أشرف موضع في المسجد. ويقال للقصر: محراب، لأنه أشرف المنازل. قال امرؤ القيس : (وماذا عليه أنْ يروضَ نجائِباً ... كغِزلانِ وَحْشٍ في محاريبِ أقوالِ) أراد بالمحاريب: القصور. وقال الآخر :  (أو دُميةٍ صُوِّرَ محرابُها ... أو دُرَّةٍ سِيقَتْ إلى تاجرِ)  أراد بالمحراب: القصر. والدمية: الصورة. وقال الأصمعي: المحراب عند العرب: الغرفة. واحتج بقول الشاعر  : (رَبَّةُ محرابٍ إذا جئتها ... لم أَدْنُ حتى أرتقي سُلَّما) أراد الغرفة. واحتج بقول الله عز وجل: {وهل أتاكَ نبأُ الخَصمِ إذ تسوَّروا المحرابَ} ، قال: فالتسور يدل على ما ذكرنا. حدثنا إسماعيل بن إسحاق قال: حدثنا نصر بن علي قال: خبّرنا الأصمعي قال: حدثنا أبو عمرو  قال: دخلت محراباً من محاريب حمير فنفح في وجهي ريح المِسكِ. وقال أحمد بن عبيد:  المحراب: مجلس الملك. وإنما سمي محراباً، لانفراد الملك فيه، لا يقربه فيه أحد، ولتباعُدِ الناس منه. وكذلك محراب المسجد، لانفراد الإمام فيه. ويقال: فلان حرب لفلان: إذا كانت بينهما مُباعدةٌ. قال الراعي  : (وحارَبَ مِرْفَقُها دفَّها ... وسامى به عُنُقٌ مِسْعَرُ) أي: بَعُدَ مِرفقُها من دفِّها. والدفّ: الجَنْبُ‘‘. 

لسان العرب (1/ 305):
’’والمِحْرابُ: صَدْرُ البَيْتِ، وأَكْرَمُ مَوْضِعٍ فِيهِ، وَالْجَمْعُ المَحارِيبُ، وَهُوَ أَيضاً الغُرْفةُ. قَالَ وضَّاحُ اليَمَنِ:
رَبَّةُ مِحْرابٍ، إِذَا جِئْتُها، ... لَمْ أَلْقَها، أَو أَرْتَقي سُلَّما
وأَنشد الأَزهري قَوْلَ امْرِئِ الْقَيْسِ:
كَغِزلانِ رَمْلٍ فِي مَحارِيبِ أَقْوال
قَالَ: والمِحْرابُ عِنْدَ الْعَامَّةِ: الَّذِي يُقِيمُه النَّاسُ اليَوْمَ مَقام الإِمامِ فِي المَسْجد، وَقَالَ الزَّجَّاجُ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: وَهَلْ أَتاكَ نَبَأُ الْخَصْمِ إِذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْرابَ؛ قَالَ: المِحْرابُ أَرْفَعُ بَيْتٍ فِي الدَّارِ، وأَرْفَعُ مَكانٍ فِي المَسْجِد. قَالَ: والمِحْرابُ هَاهُنَا كالغُرْفةِ، وأَنشد بَيْتَ وضَّاحِ اليَمَنِ. وَفِي الْحَدِيثِ:
أَنّ النَّبِيَّ، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَعَثَ عُروة بْنُ مَسْعودٍ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، إِلَى قومِه بالطَّائِف، فأَتاهم ودَخَل مِحْراباً لَهُ، فأَشْرَفَ عَلَيْهِمْ عندَ الفَجْر، ثُمَّ أَذَّن للصَّلاةِ.
قَالَ: وَهَذَا يَدُلُّ عَلَى أَنه غُرْفةٌ يُرْتَقَى إِلَيْهَا. والمَحارِيب: صُدُور المَجالِس، وَمِنْهُ سُمّي مِحْرابُ المَسْجِد، وَمِنْهُ مَحارِيبُ غُمْدانَ باليَمَنِ. والمِحْرابُ: القِبْلةُ. ومِحْرابُ المَسْجِد أَيضاً: صَدْرُه وأَشْرَفُ مَوْضِعٍ فِيهِ. ومَحارِيبُ بَنِي إسرائيلَ: مَسَاجِدُهم الَّتِي كَانُوا يَجلسون فِيهَا؛ وَفِي التَّهْذِيبِ: الَّتِي يَجْتَمِعُون فِيهَا لِلصَّلَاةِ‘‘. 
  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200394

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں