بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کے لیے وقف دکان کو فروخت کرنا


سوال

کسی نے اپنی دکان کی زمین مسجد کے لیے دے دی، مسجد والوں نے اس دکان والی زمین سے مسجد سے باہر نکلنے کے لیے دوسرا دروازہ لگا دیا، پھر اس کے بعد مسجد کی تعمیر کی گئی جس کی وجہ سے مسجد کا دوسرے دروازے والا راستہ بند ہو گیا ہے، اب وہ دکان والی زمین مسجد کے کسی کام کی نہیں لوگوں کی کوڑا کرکٹ کی جگہ بنتی جارہی ہے، کیا وہ زمین بیچ کر مسجد کی چار دیواری میں اس کی رقم لگائی جاسکتی ہے؟ جب کہ مسجد کو دکان کی زمین وقف کرنے والا وفات پاچکا ہے، اس کی طرف سے زمین بیچنے کی کوئی صراحت نہیں تھی، کیا اس زمین کو بیچنا جائز ہے؟

جواب

وقف جب درست اور صحیح ہوجائے  تو موقوفہ چیز قیامت تک کے لیے  واقف کی ملکیت سے  نکل کر اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں داخل ہوجاتی ہے، اس کے بعد اس کی خرید وفروخت کرنا، ہبہ کرنا، کسی کو مالک بنانا  اور اس کو وراثت میں تقسیم کرنا جائز نہیں ہوتا، جیساکہ فتح القدیرمیں ہے:

’’وعندهما: حبس العين على حكم ملك الله تعالى؛ فيزول ملك الواقف عنه إلى الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد؛ فيلزم، ولا يباع ولا يوهب ولا يورث‘‘. (فتح القدير للكمال ابن الهمام (6 / 203)، کتاب الوقف، ط؛ دار الفکر)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

’’وعندهما: حبس العين على حكم ملك الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد؛ فيلزم، ولا يباع ولا يوهب ولا يورث، كذا في الهداية. وفي العيون واليتيمة: إن الفتوى على قولهما، كذا في شرح أبي المكارم للنقاية‘‘. (2 / 350، کتاب الوقف، رشیدیہ)

  اسی طرح  واقف نے وہ جگہ  جس   جہت اور مقصد کے لیے   وقف کی ہواس کو اسی مقصد کے لیے استعمال کرنا ضروری ہوتا ہے، مثلاً اگر کوئی جگہ   مسجد کے لیے وقف کی  تو وہاں پر مسجد  بنانا   ضروری ہے، اور اگر مسجد کے مصالح اور ضروریات کے لیے وقف کی ہوتو وہ جگہ مسجد کے مصالح اور ضروریات میں استعمال کرنا ضروری ہے۔ جیسا کہفتاوی شامیمیں ہے:

’’شرط الواقف كنص الشارع، أي في المفهوم والدلالة ووجوب العمل به‘‘.  (فتاوی شامی، 4/433، کتاب الوقف، ط: سعید)

       فتاوی عالمگیریمیں ہے:

’’البقعة الموقوفة على جهة إذا بنى رجل فيها بناءً ووقفها على تلك الجهة يجوز بلا خلاف تبعاً لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه، والأصح أنه لايجوز، كذا في الغياثية‘‘. (2 / 362، الباب الثانی فیما یجوز وقفہ، ط: رشیدیہ)

لہذا صورتِ مسئولہ میں مذکورہ جگہ کو فروخت کرنا جائز نہیں  ہے، بلکہ مسجد کمیٹی پر لازم ہے کہ وہ جگہ کو صاف کرکے اسے مسجد کی ضروریات میں استعمال کرے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143905200034

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں