بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کی چھت پر ٹیلی فون کمپنیوں کے ٹاور لگانا


سوال

کیا مسجدوں پر ٹیلی فون کمپنیوں بشمول وارد، جاز، یوفون، ٹیلی نار، زونگ کے ٹاور لگانا جائز ہے؟

جواب

جو  جگہ ایک مرتبہ شرعی مسجد بن جائے وہ  وہ  ہمیشہ کے لیے "تحت الثری" (زمین کی تہہ) سے  آسمان تک مسجد کے حکم میں ہوتی ہے، اس میں کوئی ایسا کام کرنا جو مسجد  کے مقاصد کے منافی ہو شرعاً جائز نہیں ہے، لہذ ا مسجد کی چھت  بھی مسجد ہی کے حکم میں ہے، اس پر کسی موبائل کمپنی یا کسی اور کمپنی کا ٹاور لگانا شرعاً جائز نہیں ہے ۔ البتہ  جو جگہ مسجد کی ہو ،مگر شرعی مسجد نہ ہو مثلاً مسجد کاوضو خانہ،بیت الخلا،اسٹور،مسجد کی دوکانیں وغیرہ، وہاں ٹاور لگانا جائز ہے۔

'' فتاوی شامی'' میں ہے:

''(و) كره تحريماً (الوطء فوقه، والبول والتغوط)؛ لأنه مسجد إلى عنان السماء، (واتخاذه طريقاً بغير عذر)، وصرح في القنية بفسقه باعتياده، (وإدخال نجاسة فيه)، وعليه (فلا يجوز الاستصباح بدهن نجس فيه) ولا تطيينه بنجس، (ولا البول) والفصد (فيه ولو في إناء) ۔ (قوله: الوطء فوقه) أي الجماع خزائن؛ أما الوطء فوقه بالقدم فغير مكروه، إلا في الكعبة لغير عذر؛ لقولهم بكراهة الصلاة فوقها. ثم رأيت القهستاني نقل عن المفيد كراهة الصعود على سطح المسجد اهـ ويلزمه كراهة الصلاة أيضاً فوقه، فليتأمل، (قوله: لأنه مسجد) علة لكراهة ما ذكر فوقه. قال الزيلعي: ولهذا يصح اقتداء من على سطح المسجد بمن فيه إذا لم يتقدم على الإمام. ولا يبطل الاعتكاف بالصعود إليه ولا يحل للجنب والحائض والنفساء الوقوف عليه؛ ولو حلف لا يدخل هذه الدار فوقف على سطحها يحنث اهـ (قوله: إلى عنان السماء) بفتح العين، وكذا إلى تحت الثرى كما في البيري عن الإسبيجابي''۔(1 / 656، مطلب فی احکام المسجد، باب مایفسد الصلاۃ ومایکرہ فیہا، ط:سعید)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201740

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں