بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کی چھت پر نماز پڑھنے کا حکم


سوال

مسجد کی چھت پر نماز پڑھنا کیسا ہے؟

 

جواب

بلا عذرمسجد کی چھت پرنمازپڑھنا مکروہ ہے، اسی طرح نچلی منزل میں جگہ ہونے کے باوجود اسے چھوڑ کر مکمل جماعت چھت پر کرانا بھی مکروہ ہے،مسجد کی نچلی منزل چھوڑ کر چھت پر جماعت کرانا مسجد کی اصل وضع اور امت کے متوارث تعامل کے خلاف ہے اور نچلی منزل کا خالی رہنا مسجد کے احترام کے بھی خلاف ہے،  اس لیے بلا عذر   اصل مسجد چھوڑ کر چھت پر جماعت کرانا  خلافِ سنت اور مکروہ  ہے۔البتہ اگر عذر ہو تو بلا کراہت جائز ہوگا  یعنی اگر  امام  نیچے کے حصے میں مسجد کے اندرونی ہال میں ہو  اور  جماعت اس کے ساتھ ہو،لیکن  جماعت کی کثرت اور جگہ کی تنگی کی بنا پر  کچھ آدمی اوپر مسجد کی چھت پراقتدا کرلیں تو یہ بلا کراہت جائز ہوگا، واضح رہے کہ گرمی عذر میں داخل نہیں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 656)

'' (و) كره تحريماً (الوطء فوقه، والبول والتغوط)؛ لأنه مسجد إلى عنان السماء''۔

'' (قوله: الوطء فوقه) أي الجماع خزائن؛ أما الوطء فوقه بالقدم فغير مكروه إلا في الكعبة لغير عذر؛ لقولهم بكراهة الصلاة فوقها. ثم رأيت القهستاني نقل عن المفيد كراهة الصعود على سطح المسجد اهـ ويلزمه كراهة الصلاة أيضاً فوقه، فليتأمل، (قوله: لأنه مسجد)، علة لكراهة ما ذكر فوقه. قال الزيلعي: ولهذا يصح اقتداء من على سطح المسجد بمن فيه إذا لم يتقدم على الإمام.

ولا يبطل الاعتكاف بالصعود إليه، ولا يحل للجنب والحائض والنفساء الوقوف عليه، ولو حلف لا يدخل هذه الدار فوقف على سطحها يحنث اهـ (قوله: إلى عنان السماء) بفتح العين، وكذا إلى تحت الثرى، كما في البيري عن الإسبيجابي''.

الفتاوى الهندية (5/ 322)

'' الصعود على سطح كل مسجد مكروه، ولهذا إذا اشتد الحر يكره أن يصلوا بالجماعة فوقه، إلا إذا ضاق المسجد فحينئذ لا يكره الصعود على سطحه للضرورة، كذا في الغرائب''. فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200986

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں