بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کی نئی تعمیر میں ایک دکان بنانا اور اس کی آمدنی کا حکم


سوال

ہماری مسجد کے لیے 1993 میں ایک عورت نے 15 مرلے زمین وقف کی تھی ، جس پر مسجد تعمیر کیی گئی تھی ۔2014 میں مسجد کو شہید کرکے ازسرنو تعمیر کیا گیا، جس میں سڑک کی جانب صحن میں ایک دوکان ( تندور) تعمیر کیا گیا۔اس دوکان کی تعمیر کا اور کرایہ لے کر مسجد کی ضرورت میں صرف کرنے کا شرعی حکم کیا ہے؟

جواب

مسجد میں  جو جگہ نماز پڑھنے کے لیے مختص  کی جائے وہ  ہمیشہ کے لیے "تحت الثریٰ"  (زمین کی تہہ) سے اوپر آسمان تک سب مسجد کے حکم میں ہو تی ہے، اس میں کوئی اور چیز تعمیر نہیں کی جاسکتی۔ البتہ اگر مسجد  کی تعمیر  سے  پہلے سے نیچےوالے حصے میں دکانیں بنائی جائیں، اور یہ دکانیں مسجد کے مصالح اور آمدنی کے لیے ہو ں،  تو اس کی  گنجائش ہے،   لیکن جب مسجد کی  تعمیر مکمل  ہوجائے  تو  پھر نیچے دکانیں بنانا درست  نہیں ہے۔

 صورتِ مسئولہ میں جب مذکورہ خاتون نے مطلق مسجد اور اس کی ضروریات کے لیے زمین وقف کی تو اس میں جو جگہ نماز پڑھنے کے لیے متعین ہوگئی تھی وہ ہمیشہ کے لیے "تحت الثری" سے اوپر آسمان تک ہمیشہ کے لیے مسجد بن گئی تھی، اس میں کسی قسم کی اور چیز بنانا جائز نہیں ہے، لہذ ا اگر مسجد کی نئی تعمیر میں مذکورہ دکان پرانی مسجد کی نماز کے لیے مخصوص کی گئی جگہ کی حدود میں یا اس کے نیچے بنائی گئی ہے تو شرعاً ایسا کرنے کی اجازت نہیں، بلکہ اسے مسجد میں شامل کرنا ضروری ہے۔

اور اگر مذکورہ دکان نماز کے لیے مختص کی گئی جگہ کے اردگرد  کی مسجد کی موقوفہ زمین میں بنائی گئی ہے تو یہ دکان مسجد کی ملکیت ہے، اس سے جو آمدنی ہوگی وہ مسجد کی ضروریات اور مصالح میں صرف کرنا ضروری ہوگا۔

"البحر الرائق " میں ہے:

"حاصله: أن شرط كونه مسجداً أن يكون سفله وعلوه مسجداً؛ لينقطع حق العبد عنه؛ لقوله تعالى: ﴿وَاَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلّٰهِ﴾ [الجن: 18] بخلاف ما إذا كان السرداب أو العلو موقوفاً لمصالح المسجد، فإنه يجوز؛ إذ لا ملك فيه لأحد، بل هو من تتميم مصالح المسجد، فهو كسرداب مسجد بيت المقدس، هذا هو ظاهر المذهب، وهناك روايات ضعيفة مذكورة في الهداية، وبما ذكرناه علم أنه لو بنى بيتاً على سطح المسجد لسكنى الإمام، فإنه لا يضر في كونه مسجداً؛ لأنه من المصالح، فإن قلت: لو جعل مسجداً ثم أراد أن يبني فوقه بيتاً للإمام أو غيره، هل له ذلك؟ قلت: قال في التتارخانية: إذا بنى مسجداً، وبنى غرفةً وهو في يده، فله ذلك، وإن كان حين بناه خلى بينه وبين الناس، ثم جاء بعد ذلك يبني، لا يتركه. وفي جامع الفتوى: إذا قال: عنيت ذلك، فإنه لا يصدق". اهـ.(5/ 271،  کتاب الوقف، فصل فی احکام المسجد، ط: دارالکتاب الاسلامی، بیروت)

"فتاوی شامی" میں ہے:

"(وإذا جعل تحته سرداباً لمصالحه) أي المسجد (جاز) كمسجد القدس، (ولو جعل لغيرها  أو) جعل (فوقه بيتاً وجعل باب المسجد إلى طريق وعزله عن ملكه لا) يكون مسجداً.

 (قوله: وإذا جعل تحته سرداباً) جمعه سراديب، بيت يتخذ تحت الأرض؛ لغرض تبريد الماء وغيره، كذا في الفتح، وشرط في المصباح: أن يكون ضيقاً، نهر، (قوله: أو جعل فوقه بيتاً إلخ) ظاهره أنه لا فرق بين أن يكون البيت للمسجد أو لا، إلا أنه يؤخذ من التعليل أن محل عدم كونه مسجداً فيما إذا لم يكن وقفاً على مصالح المسجد، وبه صرح في الإسعاف فقال: وإذا كان السرداب أو العلو لمصالح المسجد أو كانا وقفا عليه صار مسجداً. اهـ. شرنبلالية".(4/ 357، کتاب الوقف، ط: سعید)

وفیہ أیضاً:

"لو بنى فوقه بيتاً للإمام لا يضر؛ لأنه من المصالح، أما لو تمت المسجدية ثم أراد البناء منع، ولو قال: عنيت ذلك لم يصدق، تتارخانية".(4/ 358، کتاب الوقف، فرع، ط: سعید)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909202170

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں