بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کی رقم سے امام کے لیے گھر بنانا


سوال

1۔ مسجد کے پیسوں سے امامِ  مسجد کے لیے گھر بنانا، اس کا کیا حکم ہے؟

2۔ مسجد کے نیچے یا اوپر امام کے لیے گھر بناناکیسا ہے؟

 3۔مسجد کے نیچے واش روم بنانے کا کیا حکم ہے؟

4۔چار رکعت والی سنت یا نفل کے پہلے قعدے  میں تشھد کے ساتھ درود شریف بھی پڑھنا ضروری ہے کہ نہیں؟

جواب

1۔  مسجد کی آمدن مصالحِ  مسجد کے لیے ہے،  اور امامِ  مسجد کے لیے گھر  بنانا بھی مصالحِ  مسجد میں شامل ہے؛  لہذا مسجد کے پیسوں کو امام کے گھر بنانے میں صرف کرنے میں کوئی حرج نہیں۔

2۔ مسجد کی ضروریات کےلیے وقف شدہ زمین میں امام کا گھر بنانا جائز ہے،  بشرطیکہ شرعی مسجد یعنی نماز کے لیے مخصوص کی گئی جگہ پر نہ ہو  اسی طرح نماز کے لیے مخصوص جگہ کی چھت پر بھی نہ ہو۔

3۔ جس جگہ کو مسجدِ  شرعی (نماز کے لیے مختص) بنالیا گیا وہ زمین کی تہہ سے آسمان تک مسجد کے حکم میں ہے، اب  اس کے نیچے واش روم بنانا جائز نہیں۔

4۔  سنتِ غیر موکدہ  اور نوافل کی ہر دو رکعت مستقل نماز ہوتی ہے،اگر چار رکعت سنتِ غیر مؤکدہ یا نوافل پڑھ رہے ہوں تو   اس میں افضل یہی ہے کہ  دوسری رکعت کے قعدہ کے بعد درود اور دعا پڑھیں. تاہم یہ واجب نہیں ہے، لہٰذا اگر دوسری رکعت کے قعدے میں التحیات کے بعد درود اور دعانہیں پڑھی تو بھی نماز ادا ہوجائے گی، اور سجدہ سہو بھی لازم نہیں آئے گا، نیز کراہت بھی نہیں ہوگی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 656):

"(و) كره تحريماً (الوطء فوقه، والبول والتغوط)؛ لأنه مسجد إلى عنان السماء (واتخاذه طريقاً بغير عذر) وصرح في القنية بفسقه باعتياده (وإدخال نجاسة فيه) وعليه (فلايجوز الاستصباح بدهن نجس فيه) ولاتطيينه بنجس (ولا البول) والفصد (فيه ولو في إناء) ويحرم إدخال صبيان ومجانين حيث غلب تنجيسهم وإلا فيكره وينبغي لداخله تعاهد نعله وخفه، وصلاته فيهما أفضل (لا) يكره ما ذكر (فوق بيت) جعل (فيه مسجد) بل ولا فيه؛ لأنه ليس بمسجد شرعاً. (و) أما (المتخذ لصلاة جنازة أو عيد) فهو (مسجد في حق جواز الاقتداء) وإن انفصل الصفوف رفقاً بالناس (لا في حق غيره) به يفتى نهاية (فحل دخوله لجنب وحائض) كفناء مسجد ورباط ومدرسة ومساجد حياض وأسواق لا قوارع.

 (قوله: إلى عنان السماء) بفتح العين، وكذا إلى تحت الثرى كما في البيري عن الإسبيجابي. بقي لو جعل الواقف تحته بيتاً للخلاء هل يجوز كما في مسجد محلة الشحم في دمشق؟ لم أره صريحاً، نعم سيأتي متناً في كتاب الوقف أنه لو جعل تحته سرداباً بالمصالحة جاز تأمل ... (قوله: لايكره ما ذكر) أي من الوطء والبول والتغوط نهر (قوله: فوق بيت إلخ) أي فوق مسجد البيت: أي موضع أعد للسنن والنوافل، بأن يتخذ له محراب وينظف ويطيب كما أمر به صلى الله عليه وسلم، فهذا مندوب لكل مسلم، كما في الكرماني وغيره قهستاني، فهو كما لو بال على سطح بيت فيه مصحف وذلك لايكره كما في جامع البرهاني معراج... (قوله: وأسواق) أي غير نافذة يجعلون مصطبة للصلاة فيها ح وذلك كالتي تجعل في خان التجار".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201569

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں