بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد کا پانی لے جانے کا حکم


سوال

ایک شخص مسجد کا پیش امام ہے,اس کی تنخواہ ماہانہ 6000 روپے ہے, اور مسجد کے ساتھ ایک چھوٹا ہوٹل بھی ہے, وہ ہوٹل مسجد کا پیش امام چلا رہا ہے, اب مسئلہ یہ ہے کہ ہوٹل کےلیے جو پانی کی ضرورت ہوتی ہے، وہ امام صاحب مسجد سے ہی پانی لے کر جاتا ہے,تقریباً روزانہ وہ 20 سے 25 ملی لیٹر پانی استعمال کرتا ہے,اور جو لوگ مسجد کے انتظامیہ یعنی پانی کا بل وغیرہ دیتے ہے,ان کی طرف سے پیش امام کو ہوٹل کےلیےپانی لےجانے کی مکملاجازت ہے۔ اس کے باوجود پھر بھی کچھ لوگ اعتراض کررہے کہ ہم امام صاحب کے ہوٹل سے چائے اور پانی نہیں پییں گے؛ کیوں کہ امام صاحب مسجد کا پانی استعمال کررہے ہیں,ہمارے لیے یہ حرام ہے۔ اب آپ ہی اس مسئلے کو صحیح حل کرکے بتائیے!

جواب

مسجد کا پانی عموماً مسجد کے لیے ہی وقف  ہوتا ہے۔ یعنی صرف  مسجد کے استعمال  کے لیے ہوتا ہے۔ در اصل اس میں  واقف کی شرط کا اعتبار ہے، اگر  پانی کا انتظام کرنے والے واقف کی جانب سے پانی صرف مسجد کے لیے ہو تو اس کا مسجد سے باہر لے جانا   اور  ذاتی استعمال کرنادرست نہیں۔ اور اگر واقف کی جا نب سے اس کی  اجازت ہو کہ ذاتی استعمال بھی کیا جاسکتا ہے تو  مسجد کا پانی  دوسری جگہ لے جانا بھی درست ہے۔

لہذا مذکورہ صورت میں  اگر وا قف اور کمیٹی جو پانی  کے اخرجات برداشت کرتی ہے ان  کی اجازت ہو تو امام صاحب کا مسجد سے باہر پانی لے جانا اور ہوٹل میں استعمال کرنا درست ہے۔اس صورت میں عوام کا اعتراض کرنا درست نہیں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201963

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں