بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد ومدرسہ کی تعمیر میں رقم دینے کا وعدہ کرکے پھر رقم نہ دینا


سوال

ایک مسجد و مدرسہ کی توسیع کے سلسلے میں میں نے اپنے چچا (جو کہ صاحب حیثیت بھی ہیں )سے تعاون کے سلسلے میں ذکر کیا اور ان کو بتایا گیا کہ مسجد و مدرسہ میں صرف اور صرف قرآن و سنت کے منہج کی ترویج کی جاتی ہے، اور ساتھ ہی ساتھ ان کو موجودہ مدرسے کی تصاویر بھی دکھائی گئیں جہاں پر طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں، اور ان کو اس مد میں مطلوبہ رقم بھی بتائی گئی اس سلسلے میں انہوں نے وعدہ کیا کہ میں اس سلسلے میں ضرور تعاون کروں گااور مطلوبہ رقم پوری کی پوری ادا کروں گا ، جس کا ذکر میں نے مدرسہ والوں سے کیا،  انہوں نے ان کے وعدے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے زمین کی کھدائی کروائی اور پرانا لینٹر توڑ نے کا کام شروع کیا جس کی وجہ سے نمازیوں کی جگہ بھی ختم ہو گئی اور طلبہ کو کرایہ کی جگہ لے کر پڑھائی کے لیے اس پر منتقل کرنا پڑا، اور اس بات کی یقین دہانی بھی کروائی گئی کہ تعاون پورے کا پورا میرے چچا کی جانب سے ہی ہوگا جس پر میرے چچا نے بارہا اس بات کی یقین دہانی کروائی کہ وہ اس سلسلے میں بھرپور تعاون کریں گے اور مطلوبہ رقم پوری کی پوری ادا کریں گے اور اپنے وعدے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ اس سلسلے میں میرے چچا نے تعاون کی مد میں تقریباً آدھی سے کچھ کم رقم ادا کر دی جس رقم سے نیا لینٹرن ڈالنے کے لیے خریداری کی گئی ۔ اب جب مزید رقم کی ضرورت ہے تو چچا نے رقم دینے سے انکار کردیا ہے (جس کی کوئی معقول وجہ بھی نہیں اور وہ بقیہ رقم بھی ادا کر سکتے ہیں ) جس کی وجہ سے مسجد کی تعمیر کا کام رک گیا ہے جس کی وجہ سے مسجد کی انتظامیہ اور نمازی حضرات کو کافی پریشانی کا سامنا ہے۔ اب اس سلسلے میں آپ سے گزارش ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں راہ نمائی فرمائیں کہ آیا کہ میرے چچا کا یہ عمل درست ہے یا نہیں اور ان کے کیےگئے وعدے کی کیا اہمیت ہے؟ اور کیا قرآن و سنت کی روشنی میں انہیں یہ وعدہ پورا نہیں کرنا چاہیے؟ 

جواب

اگر چچا کسی معقول شرعی عذر کے بغیر بقیہ تعاون نہیں کررہے تو وعدہ خلافی کے مرتکب ہیں اور گناہ گار ہیں، البتہ اگر کوئی واقعی عذر ہوتو پھر چچا گناہ گار نہیں ہیں۔

مسند أحمد ط الرسالة (19/ 376):
’’عن أنس بن مالك قال: ما خطبنا نبي الله صلى الله عليه وسلم إلا قال: " لا إيمان لمن لا أمانة له، ولا دين لمن لا عهد له".

وفي الأشباه والنظائر لابن نجيم (ص: 247):

’’الخلف في الوعد حرام، كذا في أضحية الذخيرة‘‘. فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144003200070

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں