بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں چندہ مانگنے کے بارے میں سوال


سوال

1- آج کل مساجد میں نماز کے بعد کسی مسجد, مدارس وغیرہ کےلیے چندہ مانگا جاتا ہے، جس میں یہ معلوم نہیں ہوتاکہ کون صحیح اور کون غلط ہے, کیا ان کو چندہ دینا درست ہے؟ 

2- دوسری بات کہ چندہ مانگنے والے یہ نہیں دیکھتے کہ آیا چندہ دینے والے کا مال حلال ہے یا حرام, کیا ان کا ایسا جمع کیا ہوا چندہ مدارس کے طلبہ پر صرف کرنا درست ہے؟ 

3- تیسری بات کیا اس طرح مساجد میں اعلانیہ چندہ مانگنا صحیح ہے؟  کیا یہ مساجد کے بے حرمتی میں شمار نہیں ہوگا؟ 

جواب

1- جس چندہ مانگنے والے کے بارے میں غالب گمان ہو کہ وہ صحیح ہے اس کو چندہ دینا درست ہے، مزید اطمینان کے لیے اس کے بارے میں تحقیق بھی کی جاسکتی ہے۔ لوگوں کے بارے میں بلا وجہ بد گمانی کرنے کے بجائے  جس پر دل مطمئن ہو اس کو چندہ  دےدیں، دیگر کو بلا تحقیق غلط نہ کہیں۔ ہمیں مسلمانوں کے بارے میں نیک گمان رکھنے کا حکم ہے، اور بے دلیل بدگمانی کو قرآنِ مجید نے گناہ قرار دیا ہے۔

2- جن لوگوں کا مال حلال نہ ہو ، ان پر لازم ہے کہ وہ مال حرام اصل مالک کو لوٹائیں اور اس کا علم نہ ہو تو  اپنا تمام حرام مال کسی غریب مستحقِ زکاۃ  کو بلا نیتِ ثواب دے دیں، لہذااگر کوئی اس نیت سے اپنا مال ایسے  مدرسہ والوں کو  دےدے جو اس کو صحیح مصرف (زکاۃ کے مصرف) میں لگاتے ہوں  تو اس کا ذمہ ساقط ہو جائے گا۔ نیز   بالفعل یہ ممکن نہیں کہ ہر ایک کے مال کے بارے مٰں معلومات لی جائیں، اور جب تک چندہ دہندہ کے بارے میں علم نہ ہو اور قرینہ بھی نہ ہو کہ اس کی آمدن حرام ہے تو از خود تحقیق و تجسس کا ہمیں حکم بھی نہیں ہے، قرآنِ مجید میں تجسس سے بھی منع کیا گیا ہے، اور بلاوجہ بدگمانی بھی منع ہے، اس لیے جب تک علم یا شبہ کی کوئی وجہ نہ ہو چندہ دہندہ سے چندہ لیا جاسکتاہے، ہاں اس میں کوئی احتیاط کرے تو بہرحال بہتر ہے۔

3- دینی  ضرورت کے لیے مثلاً مسجد یا مدرسہ یا کسی اور دینی مقصد کے لیے اگر چندہ کی ضرورت ہو تو  چند شرائط کی رعایت کرتے ہوئے مسجد میں چندہ کرنا جائز ہے، وہ شرائط یہ ہیں:

(1) اس سے کسی نمازی کی نماز میں خلل نہ ہو۔ (2) کسی کو تکلیف نہ دی جائے، مثلاً گردن پھلانگنا وغیرہ (3) مسجد میں شور وشغب نہ کیا جائے، (4) چندہ زبردستی نہ لیا جائے اور چندہ نہ دینے پر  کسی کو عار نہ دلائی جائے۔

شدید ضرورت کے مختلف مواقع پر نبی کریم ﷺ کی طرف سے تعاون کا اعلان اور بعض مواقع پر (جیسے غزوہ تبوک، اور ایک ضرورت مند قبیلے کے وفد کی آمد کے موقع پر) آپ ﷺ کا خود مسجد میں امداد جمع کرنا منقول ہے۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 164):
"ويكره التخطي للسؤال بكل حال.

(قوله: ويكره التخطي للسؤال إلخ) قال في النهر: والمختار أن السائل إن كان لايمر بين يدي المصلي ولايتخطى الرقاب ولايسأل إلحافاً بل لأمر لا بد منه فلا بأس بالسؤال والإعطاء اهـ ومثله في البزازية. وفيها: ولايجوز الإعطاء إذا لم يكونوا على تلك الصفة المذكورة. قال الإمام أبو نصر العياضي: أرجو أن يغفر الله - تعالى - لمن يخرجهم من المسجد. وعن الإمام خلف بن أيوب: لو كنت قاضياً لم أقبل شهادة من يتصدق عليهم. اهـ. وسيأتي في باب المصرف أنه لايحل أن يسأل شيئاً من له قوت يومه بالفعل أو بالقوة كالصحيح المكتسب ويأثم معطيه إن علم بحالته لإعانته على المحرم".  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200714

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں