بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مسجد میں سونے کا حکم


سوال

مسجد  میں  سونے کا کیا حکم ہے؟

جواب

مسافر اور معتکف کے علاوہ افراد کے لیے مسجد میں کھانا ، پینا اور سونا مکروہ ہے، مسافر اور معتکف کے لیے مسجد میں کھانے ، پینے اور سونے کی گنجائش ہے، واضح ہو کہ مسجد بنانے کا مقصد ذکراللہ اور عبادتِ الہٰی  ہے، اس طرح کے کاموں کے لیے نہیں، اس لیے عام حالات میں تو وہی حکم ہے جو اوپر مذکور ہے، البتہ بامر مجبوری کسی کو مسجد میں سونا پڑتا ہے تو مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ اس کی گنجائش ہوگی:

 مسجد کے آداب کا پورا لحاظ رکھے کہ شور و غوغا ، ہنسی مذاق اور لا یعنی گفتگو سے پرہیز کرے، صفائی کا پورا اہتمام رکھے اور اعتکاف کی نیت کر لے۔ 
نمازیوں کو اس سے کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچے ، اذان ہوتے ہی اٹھ جائے اور بعد میں بھی نمازیوں کے سنن و نوافل یا ذکر و تلاوت وغیرہ میں مشغول رہنے تک ان کی عبادت میں خلل نہ ڈالے۔
اگر طلبہ ہوں تو  باریش یا کم از کم آداب ِ مسجد سے واقف اور باشعور ہوں، کم سن بے شعود بچوں کو مسجد میں سلانا جائز نہیں ۔

معتکف اور ایسا مسافر جس کا کہیں ٹھکانہ نہ ہو، اس کا مسجد میں سونا درست ہے، اور تبلیغی جماعت والے اگر صفائی اور مسجد کے ادب واحترام کا لحاظ رکھیں تو اُن کے لیے مسجد میں سونے کی گنجائش ہے۔

نیز اگر مسجد میں سونے کی ضرورت پیش آئے تو  اپنا کپڑا یا بستر بچھاکر سونا چاہیے، تاکہ اگر احتلام ہوجائے تو مسجد کی چٹائی اور فرش ناپاک نہ ہو۔ اور جب احتلام کی صورت پیش آجائے تو احتیاط کے ساتھ جلد از جلد مسجد سے نکل جائے۔ اور اگر خدا نخواستہ مسجد کی جگہ ناپاک ہوجائے، تو غسل سے واپس آکر فوراً وہ جگہ پاک کرنے کا اہتمام کرے۔

خلاصہ یہ ہے کہ غیرمعتکف و غیر مسافر کا مسجد میں سونا مکروہ ہے، جو حضرات نماز یا کسی دوسری عبادت کے لیے  مسجد میں جائیں وہ اِعتکاف کی نیت کرلیا کریں، اس کے بعد نماز و دیگر اعمال سے فارغ ہوکر اگر کچھ دیر وہاں سونا چاہیں تو اس کی گنجائش ہوگی، بشرطیکہ مندرجہ بالا شرائط کی پابندی کریں۔البتہ  مسجد میں سونے سے پرہیز کرنا ہی بہتر ہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200205

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں